العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

11:27 AM, 29 Oct, 2019

نیا دور
اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی۔

واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست پر نواز شریف کی منگل تک طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی تھی۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نواز شریف کی درخواست ضمانت سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کی۔

عدالت کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کرنے پر وہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان، قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم اور دیگر مسلم لیگ(ن) کے رہنما عدالت میں موجود ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی پیشی


سماعت کے آغاز پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ سب سے بڑے آبادی والے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، بہت سے قیدی جیلوں میں بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ درخواست گزار بھی بہت سی بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں، نوازشریف تو عدالت میں آگئے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو جیلوں میں بیماریوں سے لڑ رہے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے پاس آگاہی مہم نہیں ہے اور لوگ وکیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیلوں میں جو لوگ بیمار ہیں ان کی فہرست تیار کریں اور سیکشن 440 کے تحت انہیں خود بھی چھوڑا جاسکتا ہے، اس پر عثمان بزدار نے کہا کہ تھوڑی سی گزارش کرنا چاہوں گا، میں خود بھی وکیل ہوں، میں جہاں بھی جاتا ہوں جیل کا دورہ کرتا ہوں،اب تک 8 جیلوں کا دورہ کر چکا ہوں، 6سو قیدیوں کو رہا کردیا، پیرول ایکٹ بھی کینٹ کے سامنے ہیں، جلد کام کر رہے ہیں۔

عثمان بزدار نے بتایا کہ اپنے اختیارات کا بھی استعمال کر رہے ہیں جبکہ جیل اصلاحات بھی لارہے ہیں، جیلوں کو ٹھیک کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں نواز شریف کو بہتر طبی سہولیات دی جارہی ہیں، نوازشریف کا معاملہ نیب کا تھا مگر ہم نے پھر بھی خیال رکھا اور انتہائی پروفیشنل ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ کوئی وزیراعلیٰ جیلوں کا دورہ کر رہا ہے، 72 برسوں میں کسی وزیراعلیٰ نے جیل کا دورہ نہیں کیا، میرٹ اور قانون کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال کریں گے، ہم ایک پیکج لارہے ہیں، جو بہت جلد لوگوں کو نظر آئے گا، اس پر عدالت نے ان کی بات مکمل ہونے پر کہا کہ آپ جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹروں کا بیان


سماعت کے دوران میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پڑھنا شروع کی، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ڈاکٹرز آپ آسان الفاظ میں عدالت کو بیماری سے آگاہ کریں۔

ڈاکٹروں نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو دل سمیت بہت سی بیماریاں ہیں، اگر ہم پلیٹلیٹس بناتے ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں،80 انجیکشن لگا دیے گئے ہیں اور اب ان کے پلیٹلیٹس نہیں گررہے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ عام آدمی میں کتنے پلیٹلیٹس ہونے چاہئیں، جس پر ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک لاکھ تک پلیٹلیٹس ہونے چاہئیں۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کو طبی علاج کے دوران ہی ہارٹ اٹیک ہوا ہے؟ جس پر ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ جی دوران علاج ہی ان کو دل کا دورہ پڑا، جس پر جج نے پوچھا کہ کیا وہ ہسپتال میں رہے بغیر بہتر ہو سکتے ہیں، اس پر جواب دیا گیا کہ نہیں ان کو لمحہ بہ لمحہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔

نواز شریف کے ذاتی معالج کا موقف


اس دوران جج کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ نواز شریف کا ذاتی معالج کون ہے، اس پر ڈاکٹر عدنان روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ نواز شریف کو زندگی بچانے والی ادویات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی سے ڈاکٹر شمسی کو علاج کے لیے بلایا گیا ہے لیکن ابھی تک ہمیں یہ ہی نہیں معلوم ہو رہا ہے کہ نوازشریف کے پلیٹلیٹس کیوں گر رہے ہیں، نواز شریف کی عمر 70 سال ہے اور ان کو عارضہ قلب بھی لاحق ہے، وہ آج تک غیرمستحکم ہیں، میں نے آج تک کبھی ان کی اتنی تشویشناک حالت نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کل رات کھانے کے بعد بلڈ پریشر بھی شوٹ کر گیا تھا، وہ اپنی زندگی سے جنگ لڑرہے ہیں۔

نواز شریف کی خرابی صحت


خیال رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔

بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

طبیعت کی ناسازی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 درخواستیں دائر کی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت کی تھی اور اس کیس میں ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔
مزیدخبریں