فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے نام تبدیل کرنے کا اعلان گزشتہ روز سالانہ کنیکٹ کانفرنس میں کیا اور بتایا کہ اب فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی کا نام میٹا ’META‘ رکھ دیا گیا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فیس بک کو اپنا نام تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور میٹاورس کیا ہے؟
جیو نیوز کے صحافی مظہر الہیٰ کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ اب ہم پہلے فیس بک نہیں بلکہ ’پہلے میٹاورس‘ بننے جا رہے ہیں، انہوں نے میٹاورس کو ایک ’ورچوئل کائنات‘ قرار دیا ہے جسے آپ صرف اسکرین پر دیکھنے کے بجائے اس کے اندر جا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر، یہ لامتناہی، باہم جڑی ہوئی ورچوئل کمیونٹیز کی دنیا ہے جہاں لوگ ورچوئل رئیلٹی ہیڈسیٹ، آگمینٹڈ ریئلٹی گلاسز، اسمارٹ فون ایپس یا دیگر آلات کا استعمال کرتے ہوئے ملاقات کر سکتے ہیں، کام کرسکتے ہیں اور کھیل سکتے ہیں۔
ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی پیروی کرنے والی ایک تجزیہ کار وکٹوریہ پیٹروک کے مطابق اس میں آن لائن زندگی کے دیگر پہلوؤں جیسے شاپنگ اور سوشل میڈیا کو بھی شامل کیا جائے گا۔
75 منٹ طویل اپنی آن لائن پریزنٹیشن میں مارک زکر برگ نے کہا کہ کمپنی اپنی توجہ جدید کمپیوٹنگ پر مرکوز کرنا چاہتی ہے، اب ہم پہلے فیس بک نہیں بلکہ ’پہلے میٹاورس‘ بننے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس فیس بک نے ایک خاص میٹاورس ٹیم قائم کی تھی جب کہ حال ہی میں ، اس نے اے آر اور وی آر کے سربراہ ، اینڈریو بوس ورتھ کو ترقی دے کر چیف ٹیکنالوجی آفیسر بنانے کا اعلان کیا۔
فیس بک کے پاس پہلے سے ہی 10 ہزار سے زائد ملازمین ہیں جو ’اے آر گلاسز‘ جیسے ہارڈ ویئر بنانے پر کام کر رہے ہیں جو کہ مارک زکربرگ کے خیال میں بالآخر اسمارٹ فون کی طرح ہر جگہ ہو گا۔ فیس بک نے کچھ ہفتے قبل ہی یورپ میں میٹاورس پر کام کرنے کے لیے مزید 10 ہزار ملازمین کی خدمات حاصل کرنے کا بھی اعلان کیا۔
زکربرگ نے کنیکٹ میں کہا کہ ’ فیس بک دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی مصنوعات میں سے ایک ہے لیکن تیزی سے، اس میں وہ سب کچھ شامل نہیں ہے جو ہم کرتے ہیں۔ ابھی، ہمارا برانڈ ایک پروڈکٹ سے اتنا مضبوطی سے جڑا ہوا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ہمارے ہر کام کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔‘
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فیس بک ایسے الزامات میں گھرا ہوا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنے پلیٹ فارمز سے حقیقی دنیا کو پہنچنے والے نقصانات کو سنجیدہ نہیں لیا اور اپنے ملازمین کی جانب سے آگاہ کیے جانے کے باوجود انہیں نظر انداز کیا ہے۔
امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے فیس بک کی اندرونی دستاویزات کے جائزے پر مبنی ایک سیریز شروع کی ہے جسے فیس بک فائلز کا نام دیا گیا ہے۔ جریدے کی اس سیریز میں فیس بک کی اندرونی دستاویزات بشمول تحقیقی رپورٹس، آن لائن ملازمین کے مباحثے اور سینئر مینجمنٹ کو دی گئی پریزنٹیشنز کے مسودوں کا جائزہ شامل ہے۔
جریدے کا کہنا ہے کہ فیس بک انتہائی تفصیل سے جانتا ہے کہ اس کا پلیٹ فارم خامیوں سے بھرا ہوا ہے جو مختلف طریقوں سے نقصان کا باعث بن رہا ہے اور اکثر ایسے طریقوں سے جو صرف کمپنی مکمل طور پر سمجھ سکتی ہے۔ ناقدین نے نام تبدیلی کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے موجودہ بحران کو ختم کرنے کی چال قرار دیا ہے۔
امریکی ڈیموکریٹک وکیل مارک الیاس نے اس کا موازنہ سگریٹ فروخت کرنے والی کمپنی فلپ مورس کو پیش آنے والے بحران سے کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ مت بھولیں کہ جب فلپ مورس کمپنی نے اپنا نام بدل کرکے الٹریا رکھا تو یہ تب بھی کینسر کا باعث بننے والے سگریٹ ہی بیچ رہی تھی۔
کنسلٹنسی ’اینکرچینج‘ کی بانی سی ای او اور فیس بک کی سابق پبلک پالیسی ڈائریکٹر کیٹی ہاربتھ کا کہنا ہے کہ وہ زکربرگ کے اعلان کے دوران سوچ رہی تھیں کہ میٹاورس میں پولیس کون ہو گا؟ ’پہلے چند سال بہت اچھے لگ سکتے ہیں کیونکہ سروس پر بہت سے لوگ نہیں ہوں گے لیکن جیسے جیسے زیادہ لوگ آئیں گے تو اتنے ہی برے کردار بھی بڑھیں گے۔‘
ہاربتھ نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ تقریباً ہر پانچ سال بعد، فیس بک ’پریس سائیکل‘ کے درمیان سمت میں ایک بڑی تبدیلی کا اعلان کرتی ہے۔ فی الحال، فیس بک کے نام کی تبدیلی خواہش مندانہ معلوم ہوتی ہے۔
جب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا میٹاورس صرف ایک فیس بک پروجیکٹ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ،نہیں، میٹاورس پر بات کرنے والی دیگر کمپنیوں میں مائیکروسافٹ اور چپ میکر انویڈیا (Nvidia) شامل ہیں۔
انویڈیا کےاومنیورس پلیٹ فارم کے نائب صدر رچرڈ کیریس کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں میٹاورس میں ورچوئل دنیا اور ماحول بنانے والی بہت سی کمپنیاں ہوں گی، اُسی طرح جیسے ورلڈ وائڈ ویب (www) پر بہت سی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔