اجلاس میں ریاستی رٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اجلاس وزیراعظم کی زیرصدارت ہوا جس میں ڈی جی آئی بی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈی جی ایم او، وزیراطلاعات، وزیر دفاع پرویز خٹک، نیول چیف امجد خان نیازی، ائیر چیف ظہیراحمد بابر، وزیر داخلہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید بھی شریک ہوئے.اجلاس میں قومی سلامتی کے دیگر امور پر حکمت عملی بنانے پر غورکیا گیا اجلاس میں قومی سلامتی کے دیگر امور پر بھی حکمت عملی بنانے پرغور کیا جائے گا ملکی داخلی اوربیرونی سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے موقف اپنایا کہ کالعدم جماعت کے سربراہ کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ فرانسیسی سفیر کی بےدخلی سے متعلق بھی کوئی بات نہیں ہو گی۔ذرائع کے مطابق عسکری قیادت بھی ان معاملات پر سیاسی قیادت کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔
سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت نے موقف اپنایا کہ کالعدم جماعت کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی،کالعدم جماعت ملک میں افراتفری پیدا کر رہی ہے۔اجلا س میں پولیس اور رینجرز پر حملہ کرنے والوں کے خلاف رینجرز کو ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔عسکری قیادت نے کہا کہ پولیس پر حملہ کرنے والوں کے حوالے کیے جانے تک بات نہیں ہو سکتی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ رینجرز کو آرٹیکل 147 کے تحت پنجاب میں پولیس کو رینجرز کے ماتحت کردیا گیا ہے، انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 97 کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی تعیناتی کی صوابدید پنجاب حکومت کی ہوگی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیم تحریک لیبک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں، ممکنہ طور پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری اور میں ان کے ساتھ آج شام کو مذاکرات کریں گے اور ہماری کوشش ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے طے پائیں جبکہ معاملات ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔