یہ کہنا ہے سینیئر صحافی بلال غوری کا اپنے تازہ ترین وی لاگ میں۔ اس ویڈیو میں انہوں نے میجر جنرل فیصل نصیر کا ماضی اور ان کے عہدے کی اہمیت پر بھی مفصل گفتگو کی۔
پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی سیاست میں محکمہ زراعت، آبپارہ، راولپنڈی، نامعلوم افراد اور لڑکی کے بھائیوں جیسی نئی نئی اصطلاحات سننے کو مل رہی ہیں۔ یہ سب اصطلاحات پاکستانی فوج کے لئے اس وقت استعمال کی جاتی رہی ہیں جب اسٹیبلشمنٹ سیاست میں دخل اندازی کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن اب کچھ دنوں سے عمران خان نے بھی اپنے جلسوں، تقریروں اور ریلیوں میں کچھ نئے نام لینے شروع کیے ہیں۔ پہلے انہوں نے مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کا نام لیا اور پھر وہ ڈرٹی ہیری کہنے لگے۔ عمران خان نے جب یہ نام لینے شروع کیے تو بہت سے لوگ اندازے لگانے میں مصروف ہو گئے کہ عمران خان کن شخصیات کا ذکر کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ایک واضح اشارہ اس وقت دیا جب انہوں نے کہا کہ جب سے 'ڈرٹی ہیری' اسلام آباد میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ اس اشارے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ڈرٹی ہیری حال ہی میں ٹرانسفر ہو کر اسلام آباد پہنچے ہیں اور شہباز گل کی گرفتاری میں ان کا کردار ہے۔
بلال غوری نے بتایا کہ عمران خان کا اشارہ جنرل قمر باجوہ کی جانب اس لئے نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ جنرل باجوہ کا کھل کر نام لیتے ہیں۔ اسی طرح ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کا اس معاملے سے براہ راست تعلق اس لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ایک سال سے ڈی جی آئی ایس آئی ہیں۔ وہ حال ہی میں ٹرانسفر ہو کر اسلام آباد نہیں آئے۔
گذشتہ روز اعظم سواتی نے پریس کانفرنس کر کے پاکستان آرمی سے تعلق رکھنے والے دو آفیسرز کے نام لیے اور الزام لگایا کہ انہیں گرفتار کرنے اور ان پر تشدد کرنے میں ان دونوں افسروں کا ہاتھ ہے۔ اس کے بعد لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے عمران خان نے بھی یہی دو نام دہرائے جو اعظم سواتی نے لیے تھے۔ ان میں سے ایک آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر ہیں جنہیں اگست 2022 میں اس عہدے پر تعینات کیا گیا جب کہ دوسرے آفیسر آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر برگیڈیئر فہیم ہیں۔ اعظم سواتی نے یہ الزام بھی لگایا کہ جب وہ ایف آئی اے کی حراست میں تھے تو انہی دو افسروں نے ان سے تفتیش کی، انہیں ننگا کیا اور ان پر تشدد کیا۔ اعظم سواتی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بعد میں اس تشدد کے نشانات مٹا دیے گئے۔
ڈی جی سی کا عہدہ فوج میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر تعینات آفیسر بہت مضبوط، تگڑا اور وسیع اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں سے رابطے رکھنا اور ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اس عہدے پہ تعینات آفیسر کی ذمہ داری ہے۔ آئی ایس آئی میں تعینات یہ آفیسر ڈی جی آئی ایس آئی کے ماتحت کام نہیں کرتا بلکہ براہ راست آرمی چیف کو جوابدہ ہوتا ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جب نواز شریف کے خلاف پاناما والا مقدمہ چلا تھا تب ڈی جی سی کے عہدے پر میجر جنرل فیض حمید تعینات تھے۔ ان کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ انہوں نے سیاسی انجینئرنگ میں مرکزی کردار ادا کیا اور ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ (ن) کو داغدار کر کے تحریک انصاف کے لئے راستہ بنایا۔ مسلم لیگ (ن) کو تب یہ محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت تو ہماری ہے مگر چلا کوئی اور رہا ہے۔ ہماری ہی حکومت میں ہمارے خلاف جے آئی ٹی بن جاتی ہے اور دن بدن ہمارے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ فیض حمید بعدازاں لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر جی ایچ کیو چلے گئے اور پھر انہیں ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا گیا۔ پچھلے سال نومبر میں عمران خان کو نہ چاہتے ہوئے ان کی جگہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانا پڑا اور فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور بنا دیا گیا۔
آئی ایس آئی میں ڈی جی سی کے عہدے پر بعدازاں اپریل 2021 میں میجر جنرل عرفان ملک کو تعینات کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں جو 12 میجر جنرلز کی ترقیاں ہوئی ہیں، ان میں عرفان ملک کا نام شامل نہیں ہے۔ میجر جنرل عرفان ملک نے ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز شریف کو مبینہ طور پر کچل دینے کی دھمکی دی تھی تو ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے ان کی ترقی روک دی گئی ہو۔ اپریل 2021 میں میجر جنرل عرفان ملک کی جگہ میجر جنرل کاشف نذیر کو ڈی جی سی بنا دیا گیا۔ اور اب اگست 2022 میں میجر جنرل فیصل نصیر کو اس عہدے پر فائز کر دیا گیا۔