اس کے بعد شہباز شریف کے خلاف نیب کے نئے کیسز کی خبر آئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی نیب کا نوٹس جاری ہو گیا اور شاہد خاقان عباسی کو بھی۔ ساتھ ہی ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری پر فردِ جرم بھی عائد کر دی گئی۔ شہباز شریف کی درخواست ضمانت میں ایک بار تو توسیع ہو گئی لیکن 28 ستمبر کو اگلی پیشی پر لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت میں مزید توسیع دینے سے انکار کر دیا اور وہ گرفتار ہو گئے۔
لیکن اسی روز جب مولانا فضل الرحمٰن نے مظفر آباد، آزاد کشمیر میں تقریر کی تو انہوں نے یہاں واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ کوئی اور لوگ ہوں گے جن پر ہاتھ ڈالتے ہوں گے تو ان کی گردنیں جھک جاتی ہوں گی۔ ہمارے پر ہاتھ ڈالا تو اور اکڑ جائیں گے۔ مولانا نے کہا کہ انہیں نیب سے ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ مولانا نے کہا کہ ماضی میں بھی ان کے خلاف اس طرح کی مہمات چلتی رہی ہیں، اور اب بھی ان کو توڑ پہنچا کر آئیں گے۔
اس کے بعد انہوں نے میڈیا اور اینکرز کو بھی متنبہ کیا کہ اس گدلے پانی میں ہاتھ نہ ڈالو، اپنا منہ گندا کرو گے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے واضح پیغام دیا کہ اگر ہماری کردار کشی کی گئی تو ہم بھی احترام نہیں کریں گے۔ یہاں وہ یقیناً یہ پیغام پاکستانی فوج کو دے رہے تھے کیونکہ اگلے جملے میں انہوں نے قومی اسمبلی میں حال ہی میں پیش کیے گئے ایک قانونی مسودے کا حوالہ دیا جس میں پاک فوج کی بے احترامی کرنے پر جرمانے اور سزا تجویز کی گئی تھی۔ یہ بل سابق وفاقی وزیر شیر افگن نیازی کے صاحبزادے جو اب تحریک انصاف کا حصہ ہیں، امجد خان نیازی نے پیش کیا تھا۔ مولانا نے کیا کہا، سنیے:
مولانا نے کہا کہ نیب کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے بار بار کہا لیکن اس وقت ان کی بات ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے نہیں سنی۔ انہوں نے کہا کہ آج شہباز شریف بھی جیل میں ہیں، ان کے بیٹے بھی جیل میں ہیں، اور آصف زرداری پر بھی فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔ لیکن میں نے کبھی نیب کے اس قانون کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ وہ آج ہونے والی گرفتاریوں کو بھی ایک سیاسی حربہ اور ہتھکنڈا سمجھتے ہیں۔
تقریر کے آخر میں انہوں نے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ملک میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ اگر بگڑو گے تو افغانستان میں جو امریکہ کا حشر ہوا خدا کی قسم یہاں تمہارا وہی حشر ہو جائے گا۔ انہوں نے تو بندوق سے جنگ لڑی تھی، ہم بندوق سے بھی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہم ایسے ہی تمہیں میدان میں گھسیٹتے چلے جائیں گے۔
اسی رات سماء ٹی وی کے پروگرام میں فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطاالرحمٰن نے بھی دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر مولانا کو نیب نے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو ہم صوبائی سطح پر اس کے خلاف احتجاج کریں گے اور ہم احتجاج بھی اِدھر اُدھر نہیں بلکہ کور کمانڈر پشاور کے گھر کے باہر کریں گے۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو مولانا پر ہاتھ ڈال کر دکھائے، ہم لوہے کے چنے ثابت ہوں گے۔
اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ اگلے ہی روز نیب نے ایک وضاحت جاری کر دی جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ انہوں نے تو مولانا فضل الرحمٰن کو بلایا ہی نہیں ہے۔ ان کے خلاف انکوائری نیب خیبر پختونخوا میں جاری ہے اور انہیں مؤقف پیش کرنے کے لئے نیب خیبر پختونخوا ہی بلایا جائے گا۔
اس سارے قصے کو دیکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ جو آنکھیں دکھائے، اس کے آگے نیب جیسے ریاستی ادارے لمب لیٹ ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آنکھیں دکھانا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا امریکی فوج کے ساتھ افغانستان میں ہوئے سلوک کی یہاں دھمکی دینا دراصل جمعیت کے مدرسوں کے وسیع و عریض نیٹ ورک کے بل پر ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ یہ مدرسے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ملک کے اندر اور باہر سے ملنے والی امداد کے ذریعے ہی 1980 اور 1990 کی دہائی میں قائم کیے گئے تھے۔ اب انہی کے طلبہ اور نیٹ ورک کے نام سے ریاستی اداروں کو دھمکایا جا رہا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ لڑائی نہ تو نظریاتی ہے، اور نہ ہی اس میں کوئی پالیسی میں تبدیلی کارِ فرما ہے۔ سارا معاملہ اختیارات کی لڑائی کا ہے۔ خیبر پختونخوا میں جمعیت اور تحریک انصاف دو بڑی سیاسی قوتیں ہیں جو ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ مسئلہ محض اتنا ہے کہ ایک فریق کو ریاستی اداروں سے یہ شکایت ہے کہ دوسرے فریق کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اور ان الزامات کو تقویت تحریک انصاف پر تنقید کرنے کی صورت میں نیب جیسے ریاستی اداروں کے فوراً اپوزیشن کے خلاف حرکت میں آنے سے ملتی ہے۔ ریاستی ادارے اگر خود کو سیاست سے علیحدہ رکھیں تو یہ نوبت نہ آئے۔ پاکستان کے آئین کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ ریاستی اداروں کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور اس کے پیچھے منطق بھی یہی ہے کہ حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں لیکن ریاستی ادارے مستقل ہوتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کے ہر حال میں فنکشنل رہنے کے لئے یہ لازمی ہے کہ یہ ادارے مکمل طور پر آزاد ہوں اور ان کا کردار الزامات سے پاک رہے۔ اس اصول کی پامالی سے ہی یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔