اب جب کلاسز شروع ہوگئے تو حکومتی فیصلے پر سوالات اُٹھنے لگے کہ اگر حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا تو کیا اس ضمن میں ھائیر ایجوکیشن، باقی تعلیمی اداروں سمیت اساتذہ سے پوچھا گیا تھا کہ ان لائن سسٹم کیلئے جو چیزیں درکار ہوتی ہے وہ طلباء وطالبات کو میسر کئے گئے ہیں یا نہیں۔ جیسے انٹرنیٹ کی دستیابی، مناسب موبائل فون یا کمپیوٹر وغیرہ؟۔
ہمارا ملک ترقی یافتہ نہیں بلکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ یہاں لاک ڈاؤن میں لاکھوں افراد بیروزگاری کی دلدل میں پھنس گئے تھیں۔ لوگ اتنے مجبور ہوگئے تھیں کہ کھانے کے چیزوں کو خریدنے کیلئے وہ اپنی گھروں کی عورتوں کے زیورات بیچھنے پر مجبور ہو کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے رہے۔ دوسرے لفظوں میں اُن کے گھر کا پورا معاشی نظام ٹپ ہو کر رہ گیا۔ اوپر سے سکول، کالج اور یونیورسٹیز کی بھاری فیس بھرنے کے خوف سے والدین مزید پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔
ستم ظریفی یہ کہ حکومت وقت نے آن کے کیلئے ٹیوشن فیس بھی معاف نہیں کیا۔ اوپر سے ہوشربا مہنگائی۔ اس کسمپرسی کی حالت میں بہت سے والدین نے اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیمی اداروں سے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اب اگر حکومت نے اس بات پر نظر ثانی نہیں کی تو ہم تو ویسے بھی تعلیمی میدان میں دنیا کے اکثر ممالک سے بہت پیچھے ہیں لیکن خدشہ ہے کہ ہم اُتنا پیچھے چلے جائینگے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
ان لائن کلاسز کیلئے ضروی ہے کہ ہر خواہش مند طالبعلم کو انٹر نیٹ تک بھر پور رسائی ہو۔ لیکن اس سلسلے میں بھی ہمارے ملک میں ایک عجیب سا چکر ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ ٹاور کے نزدیک والے گھروں میں ہونے پر فور جی جب کہ تھوڑا فاصلے پر یا دور والے گھروں میں ایچ پلس یا ای کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ ڈی۔ایس۔ایل کا انٹرنیٹ کنکشن صرف شہروں تک محدود ہے اور اگر کچھ قصبوں میں یہ سہولت موجود ہے تو وہ بس کچھ گنے چنے علاقے ہیں۔ مگر جو دور دراز علاقے ہیں وہ اس سہولت سے محروم ہے اگر تھوڑی بہت سہولت ہے بھی تووہ نہ ہونے کہ برابر ہے یہ ہے۔ اب اس صورتحال میں بلا طلباء وطالبات کیسے اپنے پڑھائی کو جاری رکھ سکیں گے۔ اس حوالے سے میں نے بہت سے تعلیمی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ بات کی تو انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر سرکاری تعلیمی ادارے آئی۔ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولیات سے محروم ہیں اور مطابہ کیا کہ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ اس پر توجہ دے۔
اُمید ہے کرونا وائرس کی وباء نے پاکستان کے عوام، حکومت اور اداروں کو جگایا ہوگا یا شاید اب بھی سارے خواب خرگوش میں مگن ہیں۔ کہ بس یہ تو ایک وباء تھی آگئی اور چلی گئی۔ میرے خیال میں ایسا بالکل نہیں ہے ۔ اسلئے حکومت کو چاہیے کہ آیندہ کیلئے ایک بھرپور اور جامع حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اُترے۔
کچھ دن پہلے کہا گیا تھا کہ سات ستمبر سے لیکر 28 ستمبر تک تمام تعلیمی ادارے کھل جائینگے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ کچھ علاقوں میں کرونا کے تازہ کیسز رپورٹ ہونے کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یونیورسٹیوں کی کلاسسز پھر سے ان لائن ہونگے اور کالج، سکولز کے طلباء وطالبات فزیکل کلاسسز لینگے اور کرونا سے بچنے کیلئے حکومت اور تعلیمی اداروں سے دئیے گئے ایس۔او۔پیز پر عمل کرینگے۔ پاکستان کے بہت سے شہروں میں سکولز اور کالجز بھی حکومت نے ہی بند کئے جو ایس۔او۔پیز پر عمل نہیں کرتے اور بھاری جرمانے بھی ان پر عائد کردی گئی ہیں۔ کیا یونیورسٹیوں کی طلباء وطالبات اتنے عاقل و با شعور نہیں ہے کہ وہ ایس-او- پیز پر عمل کریں اور فزکل کلاسسز لے اور اپنے تعلیم کو جاری رکھے یا یہ کرونا وائرس صرف یونیورسٹیوں کہ طلباء وطالبات پر حملہ اور ہوتے ہیں؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ طلباء وطالبات کو وہ سارے سہولیات فراہم کہ وہ ان لائن سبق پڑھ سکے اور پھر ان لائن امتحان بھی دے سکے ایسا نہ ہو کہ وہ ان لائن بھی نہ پڑھے اور پھر یونیورسٹی اس کو ڈیٹ شیٹ جاری کریں کہ فزیکل امتحان کیلئے یونیورسٹی میں اجائے یہ ایک واقعہ اس مہینے میں شہید بینظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور کہ طالبات کیساتھ ہوا جن میں سے چند ایک طالبات نے کچھ دنوں کیلئے ان لائن کلاسسز لئے تھیں اور کچھ طالبات ان کلاسز سے محروم بھی ہو گئے تھے۔
لیکن پھر بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ فزیکل امتحان 15 ستمبر سے شروع ہوگا اور 30 ستمبر تک ختم ہو جائے گا اور پھر سے اس کہ بعد ان لائن کلاسسز ہونگے اس پھر یونیورسٹی کے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایل۔ایم۔ایس سسٹم موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ان لائن امتحان لینا پڑتا ہے۔ اب یہ عجیب ہے کہ یونیورسٹی کے پاس ان لائن کلاسسز کا انتظام تو ہے مگر ان لائن امتحان لینے کا کوئی انتظام نہیں یہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وزیر تعلیم کیلئے سوالیہ نشان ہے۔