سلمیٰ تنویر نامی خاتون کے خلاف 2013 میں لاہور کی نشتر کالونی پولیس نے توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا تھا جس کے مطابق خاتون کا اپنا ایک سکول تھا جس کی یہ خود پرنسپل بھی تھی۔ الزام یہ تھا کہ اس نے رسولِ اکرمﷺ کو اللہ کا آخری نبی ماننے سے انکار کیا اور لوگوں کو پیغامات بھیجے کہ وہ خود نعوذ باللہ پیغمبر ہے۔ یہ مقدمہ 3 ستمبر 2013 کو درج کیا گیا تھا اور گذشتہ آٹھ سال سے زیرِ سماعت تھا۔ سلمیٰ تنویر کے وکیل کا کہنا تھا کہ خاتون کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ اس حوالے سے لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی ایک رپورٹ بھی جمع کروائی گئی جس کے مطابق یہ schizoaffective disorder سے گزر رہی تھیں جس میں انسان کو عجیب و غریب خیالات آتے ہیں اور ایسے میں اس کا دماغ اس کے سامنے کچھ ایسی اشکال بھی بنا سکتا ہے جو کہ حقیقت میں وہاں موجود نہیں ہوتیں۔
تاہم، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ ہی کی ایک رپورٹ عدالت می جمع کروائی گئی جس کے مطابق خاتون کسی قسم کے ذہنی مرض کا شکار نہیں تھیں اور وہ عدالت میں مقدمے کا سامنا کر سکتی تھی۔ سلمیٰ تنویر کے وکیل کے مطابق جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس وقت ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ تھا لیکن جج منصور قریشی کے مطابق جس قسم کا ذہنی مرض سلمیٰ تنویر کو لاحق تھا، یہ قانونی طور پر پاگل پن کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ نے جو رپورٹ ان کے ذہنی مرض کے حوالے سے پہلے جمع کروائی تھی وہ 2014 کی تھی کہ جب واقعے کو محض ایک برس گزرا تھا اور ان کے ذہنی توازن کے درست ہونے کے بارے میں رپورٹ 2019 میں جمع کروائی گئی۔ اس دوران 2015 میں اس کیس کو دوبارہ شروع کیا گیا تھا اور اب اس کا فیصلہ آیا ہے۔ بعد ازاں جو فیصلہ کیا گیا یہ ایک میڈیکل بورڈ کا تھا۔ مقدمہ دوبارہ شروع ہونے پر بھی سلمیٰ تنویر کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ واقعے کے وقت ذہنی طور پر متوازن نہیں تھیں جب کہ مخالف وکیل کا کہنا تھا کہ یہ خاتون گذشتہ چار سال سے اپنا سکول بھی چلاتی رہی ہیں اور متعدد مرتبہ بیرونِ ملک سفر کر چکی ہیں لہٰذا یہ دعویٰ کہ وہ ذہنی طور پر متوازن نہیں، درست نہیں ہے، اور اس کا مقصد محض مقدمے کی طوالت میں اضافہ کرنا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ سلمیٰ تنویر نے اس دوران اپنی تمام تر دولت اپنے شوہر کے نام بھی کر دی تھی اور اس کے لئے جائیداد سے متعلق تمام تر کاغذی کارروائی سے گزری تھی۔
سلمیٰ تنویر کے وکیل کا مؤقف بہرحال بدستور یہی تھا کہ بعد میں جو کچھ بھی ہوا ہو، جس وقت یہ واقعہ پیش آیا جس کا مقدمہ عدالت کے سامنے موجود تھا، اس وقت ان کی مؤکلہ کا دماغی توازن درست نہ تھا اور پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 84 کے تحت کسی بھی ذہنی طور پر غیر متوازن شخص کا اقدام جرم تصور نہیں کیا جا سکتا۔
سلمیٰ تنویر پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ اس نے ختمِ نبوتﷺ کا انکار کیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ جس وقت خاتون نے یہ پیغامات لوگوں کو بھیجے، اس وقت وہ اپنے اس فعل کے نتائج سے آگاہ نہیں تھی۔ دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے سلمیٰ خاتون پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی۔ سلمیٰ تنویر کے پاس ایک ہفتے کا وقت ہے کہ وہ اپنے خلاف آئے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔
پاکستان کے توہینِ مذہب سے متعلق قوانین پر بیرونی دنیا سے بار بار تنقید دیکھنے میں سامنے آئی ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ بھی جاری کی تھی جس میں پاکستان کے اندر توہینِ مذہب سے متعلق قوانین کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ قوانین غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف تواتر سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم، یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سلمیٰ تنویر سے پہلے ایک اور شخص اسی قسم کا دعویٰ کرنے کے بعد پشاور کی ایک عدالت میں گذشتہ برس قتل کر دیا گیا تھا۔ اس شخص نے کئی سال قبل نبوت ہی کا دعویٰ کیا تھا اور یہ ایک امریکی شہری بھی تھا۔ اس کے قاتل نے عدالت کے اندر گھس کر اس کو گولی ماری تھی اور احاطۂ عدالت میں پستول ایک وکیل لے کر آیا تھا جس نے ملزم کو گولی مارنے کے لئے اس نوجوان کو یہ فراہم کی۔ واضح رہے کہ پشاور میں قتل ہونے والا شخص کئی برس قبل ہی سرِ عام یہ اعلان کر چکا تھا کہ اس نے غلطی کی تھی اور یہ کہ وہ اپنے کیے کی معافی مانگ چکا تھا اور اب دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکا تھا۔ اس نے یہ معافی علاقے کے ایک معروف عالمِ دین کی موجودگی میں مانگی اور عالمِ دین نے بھی عوام کو یہ تلقین کی کہ اب یہ شخص رجوع کر چکا ہے لہٰذا اسے معاف کر دیا جائے اور اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ تاہم، اس کو عدالت کے احاطے میں قتل کر دیا گیا۔ بعد ازاں وکلا اور پولیس افسران نے قاتل کے ساتھ فخریہ انداز میں تصاویر بھی بنائیں۔
ایک اور پروفیسر کو 2019 میں بہاولپور میں ایک نوجوان طالبِ علم نے اس وقت چھریاں مار کر قتل کر دیا تھا جب انہوں نے کالج میں نئے آنے والے طلبہ کے اعزاز میں دی گئی پارٹی کا دفاع کیا تھا اور طالبِ علم نے اسلامی شعائر کا انکار کرنے کا الزام لگا کر خود ہی ان کو قتل کر دیا تھا۔ 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990 سے لے کر تب تک 62 افراد توہین کے الزام میں قتل ہو چکے تھے اور اس تعداد میں گذشتہ سات سال میں مزید اضافہ ہوا ہے۔