’بلوم برگ‘ کے مطابق یہ خطے میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی علامت ہے جو کاروبار اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ماہ اگست میں 35 دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیں جن میں کم از کم 52 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ حملوں اور ہلاکتوں کی یہ تعداد فروری 2017ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے منسوب کی گئی ہے جو افغان طالبان کی ہی ایک شاخ ہے اور اسے افغانستان میں اقتدار ملنے پر حوصلہ ملا ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ لندن سے منسلک عمر کریم کے مطابق پاکستانی عسکریت پسند گروپ کو افغانستان میں اقتدار ملنے کی وجہ سے مزید حوصلہ ملا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ مختلف گروہوں کے ضم ہونے کی وجہ سے افغانستان کی تازہ صورتحال سے پہلے ہی مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد اسلام آباد میں یہ خدشات ہیں کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے سے سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جس نے بجلی گھروں اور سڑکوں کے منصوبوں میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی چین کے دباؤ کا سامنا ہے جس نے جولائی میں ایک بس دھماکے میں 9 چینی شہریوں سمیت 12 مزدوروں کی ہلاکت کے بعد حکومت سے اپنے منصوبوں کی حفاظت کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ کے سینئر ماہر اسفند یار میر نے کہا کہ پاکستان اس بارے میں کھل کر بات نہیں کر رہا لیکن اسے پاکستانی طالبان کے دوبارہ ابھرتے ہوئے خطرے کے بارے میں تشویش ہے۔
پاکستان کی پریشانیوں کی ایک وجہ بہت سے مطلوب عسکریت پسندوں کا افغان جیلوں سے رہا ہونا بھی ہے۔ طالبان نے ان تمام عسکریت پسندوں کو جیلوں سے رہا کیا ہے، تاہم انہوں نے اسلام آباد کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کو دہشتگردی کے اڈے کے طورپر استعمال نہیں کیا جائیگا، تاہم ابھی تک ایسا عملی طور پر ہو نہیں سکا ہے۔
افغانستان سے عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے گزشتہ ماہ 2 پاکستانی فوجی مارے گئے تھے جبکہ کئی زخمی ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق ستمبر میں جنوبی وزیرستان پر دہشت گردوں کے خلاف ایک کارروائی کے دوران مزید 7 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔