عدالت نے اپنے فیصلے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک واقعہ بچیوں کے ختنے کیخلاف قانون کو سخت کرنے سے پہلے پیش آیا تھا۔ اس قانون میں اس مکروہ فعل کو سنگین جرم قرار دیا ہے۔
عدالت نے والدین کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکیوں کے ختنے کرنے سے قبل اس کے سنگین نتائج سامنے رکھیں۔ اگر والدین ایسے گھنائونا فعل کرتے ہوئے پائے گئے تو انھیں سزا ہو سکتی ہے۔ مصری پارلیمنٹ نے اپریل 2021ء میں ایک نیا قانون پاس کیا تھا جس کے تحت لڑکیوں کے ختنہ کرانے والوں کو کم سے کم دس سال قید بامشقت کی منظوری دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ شمالی افریقا کے اہم ملک مصر کی زیادہ تر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی کافی تعداد میں رہتے ہیں۔ اس لئے مصر کا بڑا طبقہ لڑکیوں کے ختنے کرنے کے حق میں ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کسی بھی مذہب میں اس مکروہ عمل کی اجازت نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کی جڑیں نسلی اور قبائلی روایات سے ملتی ہیں۔
مصر میں سخت قوانین رائج ہونے کے باوجود بھی لوگ نسوانی ختنے کرانے سے باز نہیں آ رہے ہیں کیونکہ یہ فرسودہ روایت صدیوں پرانی ہے۔ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اور حکومت اسے ختم کرنے کی کوششوں میں ہے لیکن اسے ابھی تک اس میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
مصری لوگوں کا ماننا ہے کہ بچیوں کے ختنے کرنے سے ان کی جنسی خواہشات قابو میں آجاتی ہیں۔ 2015ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 87 فیصد خواتین کو اس تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا تھا۔ ختنہ کرنے کے دوران کئی بچیاں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں جبکہ درجنوں کو مختلف جلدی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یونیسیف سمیت انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی دنیا کی متعدد تنظیمیں اس فعل کیخلاف آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ ان کا عہد ہے کہ 2030ء تک اس فرسودہ روایت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے تمام تر کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔