ظفر علی شاہ جو کہ جدید سندھی قوم پرستی (اگر سندھی قوم پرستی صحیح معانوں میں جدید ہے تو) کے بانی جی ایم سید کے پوتے اور امریکی شہری ہیں۔ امریکہ میں شہریت بھی سندھی وڈیرے یا کسی نسل پرست کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔
سید خاندان کے افراد جن میں ظفر شاہ کے کزن اور سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کا مؤقف ہے کہ واقعہ محض اتفاق ہے اور یہ قبرستان ان کا آبائی قبرستان ہے جس حصے پر ملاح قبیلے کی قبریں تھیں اس مقام پر ان کی والدہ سمیت بیبیاں دفن ہیں۔ یہ سب سوشل میڈیا پر بنی ہوئی سازش ہے۔
بھورو بھیل جو کہ ایک آرٹسٹ بھی تھا اس کی قبر اور لاش کی بیحرمتی پر سندھ کی سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا تھا اور شاعروں نے شاعری کی۔ مشہور شاعر بخشن مہرانوی نے لکھا "آج معلوم ہوا کہ مٹی بھی ہندو مسلم کولہی بھیل میگھواڑ ہوتی ہے"۔
اس سے قبل بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جب بدین ضلع کے پنگریو (جہاں ذوالفقار مرزا یا زرداری کی شوگر مل بھی ہے) میں ایک قبرستان سے ہندو بھیل برادری کے بھورو بھیل کی لاش اس کی قبر سے نکال کر باہر پھینک دی گئی تھی۔ چند ماہ قبل دادو میں ہندوؤں کو ان کی آخری رسومات نہیں کرنے دی گئیں۔ کئی سال قبل ہالا کے گاؤں کرم خان نظامانی میں ایک گورو میگھواڑ نامی کی لاش قبرستان سے باہر پھینک دی گئی تھی۔
بھورو بھیل جو کہ ایک آرٹسٹ بھی تھا اس کی قبر اور لاش کی بیحرمتی پر سندھ کی سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا تھا اور شاعروں نے شاعری کی۔ مشہور شاعر بخشن مہرانوی نے لکھا "آج معلوم ہوا کہ مٹی بھی ہندو مسلم کولہی بھیل میگھواڑ ہوتی ہے"۔ خواتین کے انسانی حقوق کی معروف کارکن امر سندھو اور ان کی سرکردگی میں ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کے مرکز خانہ بدوش رائٹرز کیفے میں کچھ عرصہ قبل بیورو بھیل یادگار مشاعرہ بھی ہوا تھا جس میں سامعین میں رسول بخش پلیجو جیسے دانشور و سیاسی رہنما بھی شامل تھے۔
سندھ ساگر پارٹی کے رہنما مولانا عزیزاللہ بوہیو (جو کہ سندھی قوم پرست رہنما کے ساتھ ساتھ جیّد دینی عالم بھی ہیں) نے اعلانیہ تحریری وصیت چھوڑی ہے کہ ان کی وفات پر انہیں بھیل ہندؤں کے قبرستان میں دفن کیا جائے کہ وہ اس طرح سندھیوں کا اقلیتیوں اور کمزور ذات کے ساتھ ایسے بے واجب سلوک اور زیادتیوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
یہ سب شاعرانہ و ادبی اور سول سوسائٹی کی ٹھنڈے کمروں اور گرم شامیانوں تلے خوبصورت باتیں ضرور ہیں لیکن مجموعی طور پر سندھی سماج سخت ذات پات اور قبیلہ پرستی اور مکمل مہلک ترین قبائلی جنگوں میں جتا ہوا ہے۔ فیوڈل شاہی پیر شاہی سرداری کے پنجے ہر پانچ، دس میل پر کمزور ذاتوں اور قبیلوں کے نرخڑوں پہ انتہائی مضبوطی سے گڑے ہیں۔ بقول فیض احمد فیض
اک گردن مخلوق ہے ہر حال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے کہ خون ریز بہت ہے
سندھ میں جو آپ کے نام سے بھی پہلے کسی سے ملاقات پر جو سوال پوچھا جاتا ہے وہ ہے کہ "آپ کون ہو" یا "آپ کون ہوتے ہیں" معنی آپ کی ذات کیا ہے؟ یہی سوال سندھ کے اندرونی علاقوں میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھنے پر بھی ڈاکو آپ سے پوچھیں گے۔ اگر آپ سید ہیں، بلوچ ہیں، یا آپ کا تعلق پنجاب سے ہے تو پھر زیادہ امکان نہیں کہ آپ کو اغوا کیا جائے۔ یا یرغمال کیا جائے یا گزند بھی پہنچائی جائے۔ سید اٹھا کر ان کو اپنی "قیامت کالی نہیں کرنی"، بلوچ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کا قبیلہ آپ کے پیچھے آتا ہی ہوگا لڑنے بھڑنے کو۔ اگر آپ کا تعلق پنجاب سے ہے تو ہو سکتا ہے آپ کسی فوجی افسر کے رشتہ دار ہوں اور ڈاکو یا پولیس والے بھی کترائیں گے کہ ایسی واردات فوجی کارروائی کا مؤجب بن سکتی ہے۔ ہاں، ڈاکوؤں کا سب سے مرغوب نشان پہلے نمبر پر ہندو، پھر شیخ ذات یا میمن ذات یا پھر کوئی بھی کمزور ذات یا غیر قبیلائی سفید پوش مڈل کلاس یا پیشہ ور ڈاکٹر، انجنیئر، مزدور پیشہ یا ہاری ہوگا۔
اگر کسی کے گھر اور گاؤں پر چوری ڈاکے کی واردات کے دوران یا کئی کیسوں میں پولیس کے ہاتھوں چور یا ڈاکو مارا جاتا ہے، جس چور ڈاکو کا تعلق جبری یا ڈاڈھی ذات یا قبیلے سے ہو تو پھر آپ پر جرگہ بیٹھے گا۔ سردار کی سرپنچی میں۔ جرمانے پڑیں گے۔ ایسے کئی واقعات میں پولیس والوں بشمول پولیس افسروں اور بھاگیوں (بھاگ وان معنی کہ مالک جس کے یہاں چوری ہو یا چوری کی کوشش ہوئی ہو) پر قبیلائی جرگے بیٹھے ہیں اور بھاری جرمانے ادا کیے گئے ہیں۔
سندھ میں 1980 اور 90 کی دہائی ڈاکوؤں کی دہائیاں تھیں جن میں رامجی کولہی اور بکتر بند شیدی ڈاکوؤں کے ٹولے ابھر کر آئے جو ان کی کمزور ذاتوں پر وڈیروں، میروں، پیروں کے ظلم کا ردعمل تھے۔ باقی ڈاکو قبائلی خونریزیوں اور دشمنیوں کے نتیجے تھے جو اصل میں لڑاکا قبیلوں اور ذاتوں کے مجرم پیشہ افراد تھے، جنہیں ان ذاتوں اور قبیلوں کے سرداروں وڈیروں نے اپنے مستقل مفادات میں استعمال کیا۔
سندھ مین ڈاڈھی ذاتوں (وہ ذاتیں اور قبیلے جو تعداد اور فائر پاور میں غالب ہونا یا لڑاکا کار ہوں اور سردار اور چور رکھتے ہوں) کے مقابلے میں کمزور ذاتوں اور قبیلوں کو (جو امن پسند سماجی اور قبائلی حیثیت میں کمزور ہوں) انہیں "سہے جی کھل" یا خرگوش کی کھال کہا جاتا ہے۔ میمن، شیخ اور غیر بلوچ، غیر سید، ہندو وغیرہ اسی 'زمرے' میں آتے ہیں۔ کئی کمزور ذاتوں والوں نے اپنی ذاتیں بدل کر ڈاڈھی ذاتیں اپنے نام کے پیچھے رکھی ہوئی ہیں۔
سندھ میں 1980 اور 90 کی دہائی ڈاکوؤں کی دہائیاں تھیں جن میں رامجی کولہی اور بکتر بند شیدی ڈاکوؤں کے ٹولے ابھر کر آئے جو ان کی کمزور ذاتوں پر وڈیروں، میروں، پیروں کے ظلم کا ردعمل تھے۔ باقی ڈاکو قبائلی خونریزیوں اور دشمنیوں کے نتیجے تھے جو اصل میں لڑاکا قبیلوں اور ذاتوں کے مجرم پیشہ افراد تھے، جنہیں ان ذاتوں اور قبیلوں کے سرداروں وڈیروں نے اپنے مستقل مفادات میں استعمال کیا۔
سندھ کے شمالی حصے لاڑکانہ سے کشمور تک قبیلائی خونریزیاں سرداروں وڈیروں کی 'سیاسی اقتصادیات' بنی ہوئی ہے۔ اور یہ قبیلائی جنگیں گھوٹکی، کشمور اور جیکب آباد شکارپور اضلاع میں مکمل جنگوں میں تبدیل ہو چکی ہیں جس کی کئی جھلکیاں آپ نے ان اضلاع کے ڈاکوؤں کے پاس فوجی یا جنگی نوعیت کے اسلحہ جات جن میں اینٹی ٹینک اور اینٹی ایئر کرافٹ گنز بھی شامل ہیں ٹی وی چینلز پر دیکھ چکے ہوں گے جو افریقہ میں ٹوٹسی اور زولو قبائل کے درمیان جنگوں کی یاد دلاتے ہیں۔ سندھ کے ان اضلاع میں بچوں اور ٹین ایجر لڑکوں کے ہاتھوں میں ایسے اسلحہ جات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچے ان قبائلی جنگوں میں باقاعدہ چائلڈ سولجرز ہیں۔ کشمور اور شکارپور اضلاع میں کچے کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سکول گذشتہ چار سالوں سے ان قابائلی جنگوں کی وجہ سے بند ہیں۔
"سندھو گھاٹی میں بسنے والی ذاتیں یا نسلیں" انیسویں صدی کے برطانوی مستشرق، کھوجی، مہم جو، سکالر، جاسوس اور عالم رچرڈ فرانسس برٹن کی کتاب میں بھی سندھ میں ذات پات کی اونچ نیچ پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ سندھ میں یہ ذات پات اور نسل پرستی صدیوں سے روا اور قائم دائم ہے۔ سندھی میں کہاوت ہے 'سید میرو میرو پنج سیرو' یعنی سید کتنا بھی میلا ہو پھر بھی وزن دار ہے۔ یا سب پر بھاری ہے۔ پر سندھی اور اردو کی مصنفہ و ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ سوشل میڈیا پر لکھتی ہیں کہ "سندھیوں نے ہم سیدوں کی از حد عزت کی ہے لیکن ہم نے اپنے نام اور نسب کو ان کے استحصال کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے"۔
سندھ کے سیدوں میں یہ صرف آج تک شاہ عبداللطیف بھٹائی اور جی ایم سید تھے جنہوں نے ذات پات اور نسل کو بالائے طاق رکھا یا تین طلاقیں دیں۔ شاہ لطیف کی شاعری کی اکثر سورما اور سورمائیں نچلی ذاتوں کے لوگ یا مساکین تھے۔ جب کہ اگرچہ جی ایم سید جنہوں نے دو قومی نظریہ سے مایوس ہونے کے بعد بغیر کسی ذات پات نسل و مذہب کی تفریق کے تمام سندھیوں کو ایک سندھی قوم کا تصور دیا لیکن پھر بھی جہاں انہوں نے بزم صوفیائے سندھ قائم کی وہاں انجمن سادات مٹیاری بھی قائم کی جس میں جی ایم سید سے لے کر جسٹس سجاد علی شاہ اور سینیٹر ذوالفقار شاہ تک شامل تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں جی ایم سید کی جناح صاحب سے بغاوت کی فوری وجہ ان کے مظبوط سید گروپ کے ایک رکن سید غلام حیدر شاہ کو 1946 کے انتخابات میں ٹکٹ جاری نہ کرنا تھی۔ لیکن یہ اور بات ہے کہ جناح صاحب جیسے ضدی اور اندرون پارٹی اختلاف رائے پر عدم برداشت کے حامل قائد کے سامنے ڈٹ جانا انتہائی غیر معمولی بات تھی۔ وہ بھی اس وقت جب مسلم لیگ اور جناح کا طوطی زوروں پر بول رہا تھا۔ اسی لئے جی ایم سید کے مخالفین ان پر "سید پرستی" کا الزام آج بھی لگاتے ہیں۔
غلام حیدر شاہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مظفر حسین شاہ کے والد تھے۔ مظفر حسین شاہ کے سندھ میں دور حکومت کے دوران جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو ڈاکوؤں کے سرپرستوں کے طور پر 'باہتر بڑی مچھلیوں' کی فہرست منظر عام پر آئی تھی جن میں ایک 'بڑی مچھلی' کے طور پر اس وقت کے حکومتی اتحادی رکن سندھ اسمبلی سید امیر حیدر شاہ کا نام بھی آیا تھا جو جی ایم سید کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ سید مظفر حسین شاہ نے سید امیر حیدر شاہ کو فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے متعلق متنبہ کرتے ہوئے انہیں سنگاپور جانے دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ "آپ کے والد کے میرے والد پر احسانات تھے (جناح صاحب کی طرف سے انتخابی ٹکٹ نہ دینے پر جناح سے سید کی بغاوت) تو وہ احسان چکا رہا ہوں"۔
سید خاندان کا مؤقف اگرچہ مگرچہ چونکہ چنانچہ پر مبنی ہے۔ کئی قوم پرست اس پر نالاں ہیں کہ ملزم ظفر شاہ کو 'جی ایم سید کا پوتا' کیوں کہا جا رہا ہے! ظفر شاہ کے خلاف ایف آئی آر تو داخل ہو چکی ہے لیکن اس کی گرفتاری کے امکان پر شک ہے کہ جہاں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی رشتہ داریاں سن کے سیدوں کے ساتھ ہوں، وہاں ملزم ظفر شاہ کو سزا کون دے گا؟
حال ہی میں سن میں ملاح ذات سے تعلق رکھنے والے بارہ مرحومین کی قبریں اکھاڑ کر ان کی ہڈیاں ایک اجتماعی گڑھا کھود کر اس میں دفنانے والے سید ظفر شاہ امیر حیدر شاہ کے بیٹے ہیں۔ ملاحوں کی بارہ قبروں اور ان کی میتوں کی بے حرمتی اور ان کی ایک جگہ پر اجتماعی تدفین (بغیر کسی اہتمام، ان کے لواحقین کی شرکت الوداعی رسومات کے۔ نیز یہ کہ ظفر شاہ کے حکم و دہشت سے ٹاؤن کیمٹی کے ملازمین اور خاکروبوں سے یہ جبری کام لیا گیا جس کی نظر داری ایک ملوک شاہ نامی شخص نے کی جو سن کے سیدوں کا خاص آدمی اور شہر کے سفید و سیاہ کا مالک بتایا جاتا ہے) کے قضیے نے سندھ میں "کمزور ذاتوں اور قبیلوں" میں ایک دہشت کی سی فضا کو اور مکدور کر دیا ہے۔ ان کو کہتے سنا گیا ہے کہ ان کے پیاروں کی قبریں اور زندوں کی زندگیاں اور ذاتوں کی ڈاڈھے شخصیات یا شخصوں کے ہاتھوں مزید غیر محفوظ سی ہو گئی ہیں۔ مجھے سن سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے فون پر بتایا کہ ملاحوں کی قبر کی مٹی کو بھی کدالوں سے قبرستان سے باہر پھینک دیا گیا کہ کہیں سیدوں کے قبرستان والا حصہ جہاں بقول ان کے ان کی بیبیاں دفن ہیں 'ناپاک' نہ ہو جائے۔ سن سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے مجھے بتایا کہ متاثرہ لوگوں کا تعلق ملاحوں کی سب سے 'نچلی ذات' منچھریوں سے ہے۔ منچھری منچھر جھیل پر رہنے اور کام کرنے والے مچھیروں کو کہتے ہیں۔ ملاح، ناخدا، اور پھر 'تیسرے درجے' پر منچھری۔ ایشیا کی سب سے بڑی یہ جھیل جس کا پانی ماحولیات کی تباہی کے سبب زہریلا ہوچکا۔ ملاحوں کی زمینوں پر عبداللہ شاہ کی وزارت کے دنوں میں اس کے لوگوں نے قبضے کر لیے اور متاثرہ زمینوں کے مالک آج تک بلا معاوضہ دربدر ہیں۔
سید خاندان کا مؤقف اگرچہ مگرچہ چونکہ چنانچہ پر مبنی ہے۔ کئی قوم پرست اس پر نالاں ہیں کہ ملزم ظفر شاہ کو 'جی ایم سید کا پوتا' کیوں کہا جا رہا ہے! ظفر شاہ کے خلاف ایف آئی آر تو داخل ہو چکی ہے لیکن اس کی گرفتاری کے امکان پر شک ہے کہ جہاں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی رشتہ داریاں سن کے سیدوں کے ساتھ ہوں، وہاں ملزم ظفر شاہ کو سزا کون دے گا؟
سن کا نوجوان کہتا ہے کہ چاہے سن کے سید ریاست پاکستان کے خلاف ہوں کہ اس کے حق میں، سن پر ہر دور میں حکومت، راج اور سرداری ان کی چلتی ہے۔ سن کے لوگ چپ ہیں، غریب ہیں اور سمجھتے ہیں کہ "سن کے سید مالک ہیں، حاکم ہیں"۔
یہ آج کے پاکستان اور سندھ میں نئے دلت ہیں۔