غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ربع دہائی تک بازوں کا علاج کرنے والے جرمن معالج اور ہسپتال کے ڈائریکٹر مارگیٹ ملر کا کہنا ہے، ’’یہ ان کے بچے ہیں اور وہ ان کے لیے کچھ بہترین کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ان شکاری پرندوں کو بعض اوقات رات میں حادثہ پیش آ جاتا ہے تو ان کے عرب مالکان رات رات بھر ان کے پاس بیٹھ کر ان کی تیمارداری کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان شکاری پرندوں کی عربوں کے لیے پالتو جانوروں سے زیادہ اہمیت ہے جنہیں پالنے کا مشغلہ محض ایک کھیل نہیں بلکہ جنون ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک اور بالخصوص متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بازوں کو پالنا ان کے صحرائی ورثے کا حصہ ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر مارگیٹ ملر کہتے ہیں، عرب بدو ان شکاری پرندوں سے گوشت کے حصول کے لیے شکار کروایا کرتے تھے جس کے باعث ان بازوں کو عرب بدوئوں کے خاندانوں کی بقاء کے تناظر میں نہایت اہمیت حاصل تھی۔
انہوں نے کہا، یہ پرندے خاندان کے بچّوں کی طرح تصور کیے جاتے رہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
واضح رہے کہ یہ پرندے اپنی تیز ترین پرواز تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کے باعث اکثر کسی مقام سے ٹکرانے یا زمین پر اترتے ہوئے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ ان کے بیمار ہونے کی ایک اور اہم وجہ خراب گوشت کھانا بھی ہے۔