اس کے ساتھ ساتھ ہی یہاں ایک انڈسٹریل ایریا بھی بنایا گیا جہاں پر مختلف قسم کی فیکڑیاں لگائی گئیں۔ ان میں سب سے اہم اور بڑی لائلپور کاٹن ملز تھی۔ یہ غالباً پنجاب میں پہلی بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔ شائد یہ امر آج کے نوجوانوں اور دانشوروں کے لئے باعث حیرت ہو کہ لائلپور ایک زمانے میں کپاس کا گڑھ تھا۔
لائلپور چونکہ ایک نیا شہر تھا اور پھر یہاں پہلے سے کوئی صنعت بھی موجود نہیں تھی، اس لیے ٹیکسٹائل مل میں کام کرنے کے لئے ہندوستان کے دوسرے شہروں خاص کر، دلی سے مزدور لائے گئے اور اس طرح مل کے اندر اور باہر ایک ’’منی دلی‘‘ آباد ہو گئی۔
چلتے چلتے اس بات کا ذکر بھی شائد نامناسب نہ ہو کہ مل مالک لالہ مرلی دھر کا اگرچہ دلی سے تعلق تھا اور ان کا خاندان آج بھی یہ کاروبار کر رہا ہے مگر انہیں ثقافت اور ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ اس لیے وہ ہر برس ایک ثقافتی ہفتہ منعقد کرتے تھے جو 1965 تک جاری رہا۔ 1965 کی جنگ کے بعد پاکستانی ریاست نے اسے دشمن کی جائیداد قرار دے کر قومیا لیا۔ اس کے بعد اس مل کا کیا انجام ہوا، بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اب اس جگہ رہائشی کالونی قائم ہو چکی ہے۔
مل کے باہر دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی وجود میں آگئی۔ اس خطہ کی پہلی ٹریڈ یونین بھی یہاں پر ہی قائم ہوئی۔ لائلپور میں چوں کہ کمیونسٹ، ترقی پسندوں اور سامراج دشمنوں کا کافی اثر و رسوخ تھا، انہی وجوہ کے باعث ہمیں آزادی سے پہلے یہاں کے کسانوں اور مزدوروں کی جدوجہد کا ذکر ملتا ہے۔
1947 میں شہر کی آبادی کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ یہاں کے اس وقت کے ڈپٹی کشمنر آغا عبدالحمید نے مسلم لیگ کے بعض عناصر کی خواہش کے باوجود کسی قسم کے مذہبی فسادات نہیں ہونے دئیے
پاکستان بننے کے بعد یہاں پر ٹیکسٹائل کی بڑی فیکٹریاں لگیں جن میں قابل ذکر سہگل خاندان کی کوہ نور ٹیکسٹائل ملز اور چینوٹ برادری کی کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز ہیں۔
اس کے علاوہ بہت ساری اور ٹیکسٹائل ملیں بھی لگیں جن میں عاصمہ جہانگیر کے سسر میاں فضل احمد کی پریمئر ٹیکسٹائل ملز بھی شامل ہے۔
ان صنعتوں کے لگنے کے باعث یہاں کے عام لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ان ملوں میں مزدوری بن گیا۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد ترقی پسند کارکنوں ،شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے لائلپور آباد ہو گئی اور تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی شہر میں ٹریڈ یونین تحریک کافی مضبوط تھی اوراس میں ترقی پسند خیالات رکھنے والوں کا کافی اثر و رسوخ تھا۔
جب 50ء کی دہائی میں کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال کی تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ان مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں۔
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں ذکر ہوا، تقسیم کے بعد لائلپور میں مختلف قسم کی صنعتیں لگنی شروع ہو گئی تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ کپڑا اور سوت بنانے کی فیکٹریاں اور کارخانے زیادہ سے زیادہ لگنا شروع ہو گئے۔
جنرل ایوب کے آخری دور میں اور پھر بھٹو کے عہد اقتدار میں پاور لومز کے چھوٹے چھوٹے یونٹ لگنا شروع ہوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے اور آج فیصل آباد میں سب سے زیادہ مزدور پاور لومز کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
جنرل ایوب کے خلاف تحریک میں پاکستانی مزدوروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جب پاکستان دولخت ہوا تو مزدوروں نے چند فیکٹریوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ذولفقارعلی بھٹو نے جب صعنتوں کو قومیانا شروع کیا تو اس کے ٹریڈ یونین تحریک پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹریڈ یونین رہنماء بھی ایک لحاظ سے ’’بابو‘‘ بن گئے۔
مزدوروں کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریڈ یونین رجسٹرڈ کروانا ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستانی سرمایہ دار چوں کہ ابھی میچور نہیں ہوئے تھے، خاص کر چھوٹا سرمایہ دار اور پاور لومز کے مالکان مزدوروں کی ٹریڈ یونینز کو سماجی طور پر اپنی ہتک سمجھتے تھے، جس کے باعث وہ ٹریڈ یونین کی رجسٹریشن کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ بڑی فیکٹریوں کے مالکان نے لیبر ڈیپارٹمنٹ سے ملکر پاکٹ یونین بنانے کا طریقہ اپنا لیا تھا۔
گو بھٹو کے آخری دور میں ٹریڈ یونینز بہت کمزور ہو چکی تھیں مگر جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ملتان کے مزدوروں کو نئے سال کے موقعہ پر گولیوں کا تحفہ دیا اور مزدوروں کو یہ واضح پیغام دیا گیا کہ وہ مزدوروں کی کسی قسم کی تحریک کو برداشت نہیں کریں گے۔
1970 کے الیکشن میں فیصل آباد میں مزدوروں اور عام آدمی نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا، اس لئے پیپلز پارٹی شہر کی ساری قومی اور صوبائی سیٹیں جیت گئی۔ یہ مزدور تحریک کے ابھار کا دور تھا۔ اسی دور میں ایک فیکٹری مالک کو قتل بھی کر دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت بھی درحقیقت مزدور تحریک کو اپنا دشمن سمجھتی تھی۔ چنانچہ اس نے برسراقتدار آکر لائلپور کے ہر دلعزیز رہنما ایم این اے مختار رانا کو مارشل لا کے تحت سزا دلوا کر نااہل قرار دے دیا۔
بھٹو دورمیں بینکوں کو قومی تحویل میں لینے سے درمیانے طبقے کو بہت زیادہ فائدہ ہوا اور اسے صنعتیں لگانے کے لئے بینکوں کی طرف سے قرضہ ملنا شروع ہو گیا۔
زیرنظر سطور میں میرا مقصد مزدور تحریک اور صعنتی ترقی کی تاریخ لکھنا نہیں ہے۔ آج کے فیصل آباد میں جہاں لاکھوں مزدور چھوٹی بڑی صنعتوں میں کام کرتے ہیں اور لائلپور میں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ محکمہ لیبر کے ساتھ صرف 92 ٹریڈ یونینز رجسٹرڈ ہیں اور محکمہ لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق ان فیکٹریوں میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ مزدور کام کرتے ہیں جس میں 481 بھٹے بھی شامل ہیں۔
لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فیصل آباد میں لاکھوں پاور لومز ہیں جن میں مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے مگر یہاں پر ان کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں اور آئے دن انہیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے احتجاج کرنا پڑتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ ان کا یہ ہے کہ حکومت نے ہر مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہے ( گو اس تنخواہ میں گھر چلانا ممکن نہیں)، مگر فیکٹری مالکان یہ تنخواہ بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت نے آٹھ گھنٹے کی شفٹ مقرر کر رکھی ہے مگر مالکان روزانہ بارہ بارہ گھنٹہ کام کرواتے ہیں۔ حکومت کے قوانین کے مطابق ایک مزدور چار پاور لومز پر کام کرے گا مگر مالکان چھ اور آٹھ پاور لومز پر کام لیتے ہیں۔
پاور لومز پر کام کرنے والے محنت کشوں کو کام کرنے کے لئے کوئی اچھا اور صحت مند ماحول میسر نہیں ہے۔ ان مزدوروں کو کوئی طبی سہولیات اور میڈیکل الاونس نہیں ملتا۔ یہ مزدور سوشل سکیورٹی کی سہولیات سے محروم ہیں کیوں کہ مالکان ان کے سوشل سکیورٹی کارڈز ہی نہیں بننے دیتے۔
ان محنت کشوں کو ملازمت مکمل کرنے کے بعد کوئی پنشن یا بڑھاپا الاونس نہیں دیا جاتا۔ مالکان اپنی مرضی سے جب چاہتے ہیں، مزدوروں کو ملازمت سے نکال دیتے ہیں جنہیں ملازمت کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔کچھ ایسا ہی حال بھٹہ مزدوروں کا بھی ہے۔
پاور لومز ورکرز اپنے مطالبات منوانے کے لئے آئے روز ہڑتال کرتے ہیں اور راستے بند کرتے ہیں جس کے بعد وقتی طور پر مقامی انتظامیہ حرکت میں آ جاتی ہے اور مل مالکان اور ٹریڈ یونین کے نمائندوں کو بلا کر گفت و شنید کے بعد ایک معاہدہ کروا دیتی ہے مگر جب مزدور کام پر واپس جاتے ہیں تو مالکان اپنے عہد سے منحرف ہو جاتے ہیں اور معاہدہ کی شرائط پر عمل کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ چوہے بلی کا یہ کھیل کافی عرصہ سے جاری ہے ۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں مزدور تحریک بہت ہی کمزور ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، مالکان اور مزدور مل کر ان مسائل کے حل نکالیں ورنہ کسی دن یہ مسئلہ کوئی منفی رخ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں ’’A Stitch in Time Saves Nine‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وقت پر مسئلہ حل کر لیا جائے تو اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔