صحافی شاہ زیب علی شاہ جیلانی کی عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری منظور

03:27 PM, 30 Apr, 2019

نیا دور

کراچی: ضلعی عدالت نے سائبر دہشت گردی ریاستی اداروں کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کرنے سے متعلق مقدمات میں صحافی شاہ زیب علی شاہ جیلانی کی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی ہے۔


 مولوی اقبال حیدر کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے شاہ زیب علی شاہ جیلانی کے خلاف سائبر دہشت گردی کی سیکشن 10 اے، الیکٹرانک جعل سازی سیکشن 11 اور پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کی شق 20 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوی امداد حسین کھوسو نے شاہ زیب جیلانی کے وکیل اور ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جرح کے بعد ضمانت پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کیجانب سے اندراجِ مقدمہ پر شاہ زیب جیلانی کیا کہتے ہیں؟


15 اپریل کو شاہ زیب علی شاہ جیلانی نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوی امداد حسین کھوسو کی عدالت میں اپنے وکیل کے ذریعے ضمانت میں توسیع کی درخواست جمع کرائی جہاں ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت کی تصدیق کری گئی۔

یاد رہے کہ کچھ روز قبل اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے پر برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب جیلانی کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 میں انھوں نے ’آج کامران خان کے ساتھ‘ شو میں جبری گمشدگی پر ایک پروگرام کیا تھا۔

انکا کہنا تھا کہ ویسے تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ایک عرصے سے یہ گمشدگیاں ہو رہی ہیں لیکن اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد سے بھی ہونے لگیں ہم نے کہا کہ یہ تو سارا معاملہ مین اسٹریم ہوگیا ہے۔ تو ہم نے اس کو صحافتی انداز میں کور کیا اور ہم نے کہا کہ اگر ریاست کو کسی کے ساتھ شکایت ہے تو آپ قانون کے دائرے میں رہ کر ان کے خلاف کارروائی کریں۔ انھیں یہ ناگوار گزرا کہ آپ نے اس ایشو پر ہی کیوں بات کی ہے۔‘

شاہ زیب جیلانی نے بتایا کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو پر ایک ڈاکیومینٹری کی تھی کہ ان کا جو دور اور کنٹری بیوشن ہے ہم نے اس بھلا دیا۔ وہ جنرل ضیاالحق کے وقت کے کٹھ پتلی وزیر اعظم تھے لیکن اس کے باوجود بھی ملک کو جمہوری ڈگر پر لانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔

’ڈاکیومینٹری کے آخر میں میزبان نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے لیے کیا سبق ہے میں نے کہا کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ سوچ تو قائم رہی ہے، ہم نے اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘

شاہ زیب جیلانی کے مطابق ’یہ اس قسم کا عام سا تبصرہ تھا جس سے پاکستان کی اکثریت اتفاق کرے گی اور اس میں کسی پر تہمت نہیں لگائی گئی اس میں ہم نے حقائق کو بیان کیا تو انھوں نے الزام لگایا کہ آپ نے اس میں اشارہ ہماری جانب کیا ہے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملکی سیاست چلاتے ہیں۔‘

’میرا خیال ہے کہ اس گھٹن کے ماحول میں بھی ان معاملات پر تو بات ہوتی ہے ہمارے سیاست دان کرتے ہیں اور ہمارے تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ ہم تو سیاسی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں ان کی کرپشن پر بھی ہم بات کر رہے ہوتے ہیں اس لیے ہماری کس ادارے یا کسی جماعت سے نہ کوئی لگاؤ ہے نہ کوئی بغض ہے۔‘
مزیدخبریں