خبر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو از سر نو بحال کرنے جارہی ہے نہ صرف یہ بلکہ کابینہ اجلاس میں موجود چند وزرا کے مشورے پر وزیر اعظم عمران خان نے احمدیوں کو بھی اس کمیشن کا حصہ بنانے کی منظوری دی ہے اور اس بارے کام شروع کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔ اس خبر کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے پراپیگنڈا سیل اپنے کام پر شروع ہوئے اور وٹس ایپ میسجز سمیت سوشل میڈیا پر اس انداز سے مہم چلائی گئی جس سے محسوس ہو کہ تحریک انصاف کی حکومت شاید احمدیوں کی بطور غیر مسلم حیثیت ختم کرنے جارہی ہے اور جس کے بعد اب وہ صدر وزیر اعظم آرمی چیف، چیف جسٹس سمیت دیگر اہم آئینی و انتظامی عہدوں پر براجمان ہوں سکیں گے۔ اس نیشنل کمیشن فار مائنورٹی رائٹس کو کچھ یوں پیش کیا گیا کہ جیسے اس کے تلے تمام اقلتیں ملک میں مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل کر سکیں گی اور یہ سب کسی صہیونی قادیانی گٹھ جوڑ کے تحت ہو رہا ہے۔
نیا دور کی تحقیق کے مطابق اقلیتی حقوق کے لئے کمیشن 1990 میں تشکیل پایا تھا تاہم اسکے رولز کیا ہوں گے؟ یہ کیسے کام کرے گا ؟ اور اسکا دائرہ حکم کیا ہوگا؟ آج تک کوئی بھی حکومت بھی با معنی انداز میں طے نہیں کر پائی۔ حتی' کہ آخری سنجیدہ کوشش نواز حکومت کے آخری دور میں اسمبلی کی جانب سے کی گئی تھی، جب ممبر قومی اسمبلی بیلم حسنین نے 2015 میں کمیشن کے حوالے سے پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا جبکہ اقلیتی ممبر قومی اسمبلی لال چند ملہی نے بھی 2015 میں ہی یہ بل پیش کیا۔ تاہم انہیں تا حال پاس نہیں کیا جا سکا اور معاملہ التوا کا شکار ہے۔
اگر ان مسودات کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس کمیشن کا دائرہ کار مکمل طور پر آئین پاکستان اور قوانین پاکستان کے مطابق ہے جبکہ اسکا مقصد قانون کے تحت اقلیتوں کو عطا کئے گئے حقوق پر عملدرآمد کرانا ہے۔ تو اب بات یہ ٹھہری کہ اگر احمدیوں بھی اس کمیشن کا حصہ بنا لیئے جائیں تو ان کے ساتھ بھی معاملہ وہی ہوگا انکے حقوق بھی وہی ہوں گے جو قانون میں درج ہیں۔
اس حوالے سے قانون کا جائزہ لیا جائے تو 1984 میں پینل کوڈز آف پاکستان میں ضیا مارکہ بدنام زمانہ ترمیم جسے آرٹیکل 20 (xx) کہا جاتا ہے وہ جوں کی توں موجود ہے اور ترمیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قانون کی شقیں 298Bاور 298C بھی قانون کا حصہ ہیں۔ ان شقوں کے مطابق احمدی نہ تو اپنے لئے مسلمان کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں نہ ہی شعائر اسلام کو اپنے مذہب کے نشان کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے، وہ اذان نہیں دے سکتے، وہ قرآن نہیں پڑھ سکتے، وہ کلمہ شہادت نہیں ادا کرسکتے۔ کوئی اسلامی القابات جو کہ نبی اکرمﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہ، اہل بیت رضوان اللہ، کے لئے وقف ہیں نہیں استعمال کرسکتے۔ دوسری جانب آئین میں انکی حیثیت غیر مسلم ہے جس کے باعث وہ کوئی اہم آئینی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے۔
اب کہ اگر احمدی اس کمیشن میں بطور اقلیت شامل کر بھی لئے جائیں تو اس مجوزہ کمیشن نے ان قوانین کے تحت منہا ہوجانے والے حقوق کے بعد بچ رہنے والے حقوق ہی کی قادیانیوں تک فراہمی کے لئے کام کرنا ہے۔ تو ایسے میں جس پراپیگنڈے کو مخصوص طبقے کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے اس کی کوئی منطق ہی نہیں رہتی۔
گو کہ حکومت پر ابتدا سے ہی دباو ڈال دیا گیا ہے اور پاکستان میں سیاسی تجربہ یہی ہے کہ حکومتیں اس معاملے سے کنی ہی کترایا کرتی ہیں ۔ حکومتی اتحادیوں کی جانب سے بھی واضح الفاظ میں اس اقدام پر تنقید کے ساتھ فوری طور پر اس سے فاصلہ اختیار کر لیا گیا ہے۔امکان یہی ہے کہ بیساکھیوں پر قائم اس حکومت کے پاس اس دباؤ کو جھیلنے کی کوئی خاص قوت نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کا تردیدی بیان فوری طور پر جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی حقیقیت ہے کہ اس کمیشن کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی بھی صدارتی آرڈیننس نہ جاری ہوا ہے نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔ جبکہ اس نئے کمیشن کے قیام کا معاملہ ابھی پلاننگ اور ابتدائی عملدرامد کے مرحلہ میں ہے جس کے بعد غور و فکر کے لئے اسے دیگر فورمز پر جانا ہے۔
تاہم ن لیگ کے دور میں مجوزہ اقلیتی کمیشن بل کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مجوزہ کمیشن بلوں میں 4 مسلمانوں کی کمیشن کے ممبر کے طور پر شمولیت کی تجویز دی گئی ہے جبکہ کوئی احمدی اس میں شامل نہیں کیا گیا ایسے میں حیران کن سوال یہ ہے کہ مسلمان اگر اکثریت میں ہو کر اس اقلیتی کمیشن کا حصہ بن سکتے ہیں تو احمدی بطور اقلیت بھی اس کا حصہ کیوں نہیں بن سکتے۔