پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے سال 2019 کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سماجی و معاشی امتیاز نے ملک کے کمزور ترین طبقوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے وہ نہ مقتدرہ کو نظر آ رہے ہیں اور نہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے کمزورترین شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بلوچستان کی کانوں میں مشقت کرنے والے بچوں سے جنسی زیادتی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جبکہ چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زيادتی، اُن کے قتل اور لاشیں پھینکے جانے کی اطلاعات خوفناک حد تک معمول کا حصہ بن گئی ہیں۔ عورتوں کو غیرت کی بھینٹ چڑھانے کی روایت جاری رہی، اور ان جرائم میں پنجاب سرفہرست رہا۔
رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد میں صحافیوں نے بتایا ہے کہ ریاستی پالیسیوں پر تنقید کا کام اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی سابق چئیرپرسن زہرہ یوسف نے کہا کہ ان پابندیوں نے اور ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر قدغنوں اور ذرائع ابلاغ پر دیدہ و دانستہ مالیاتی دباؤ نے آزادی صحافت کی عالمی فہرست میں پاکستان کو اور زيادہ نیچے گرا دیا ہے۔ لوگوں کےلاپتہ ہونے کی اطلاعات سامنے آتی رہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا اپنا عہد پورا کرے۔