یورپی یونین کی اسمبلی میں 681 اراکین نے اس قراردار کے حق میں ووٹ کئے اور صرف تین نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔ اجلاس میں اس مسیحی جوڑے کو مناسب طبی و قانونی امداد دینے کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں پاکستان میں توہین کے قوانین کے غلط استعمال کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اجلاس کے شرکا نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی لہر میں اضافہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کے توہین کے قوانین بین االاقوامی قوانین اور اصولوں کے خلاف ہے اور یہ مذہبی اقلیتوں کے استحصال کے لیئے استعمال ہو رہا ہے۔ اجلاس نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد پر اکسانے کی بیخ کنی کرے اور ان قوانین کے غلط استعمال کے خلاف قانونی تحفظ لاگو کرے۔ قرار داد مین پاکستان میں خواتین، صحافیوں اور ترقی پسند خیالات کے کارکنوں پر ہونے والے آن لائن حملوں پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے معاشرے کے ان کمزور اور نشانے پر موجود حلقوں کو قانونی تحفظ فراہم کرے۔
قرارداد میں یورپین کمیشن اور یورپین ایکشن سینٹر کو کہا گیا ہے کہ وہ یورپی یونین کی جانب سے ہاکستان کو دیا گیا GSP+ سٹیٹس کو ختم کرنے کے حوالے سے غور کرے اور بتائے کہ کیوں نہ پاکستان کو دیا گیا یہ GPS+ سٹیٹس عارضی طور پر ختم کردیا جائے؟ اس حوالے سے ان اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد پارلیمنٹ کو بتائیں۔
قرار داد میں یورپی یونین حکام پر زور دیا گی اہے کہ وہ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے رابطے رکھے اور اس حوالے سے مختلف پروگراموں کو ترتیب دینے میں مدد بھی دے۔
معاملے کا پس منظر
تحریک لبیک پاکستان ناموس رسالت کے معاملے پر سیاست کرنے والی مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ جس نے ناموس رسالت کے معاملے پر اب تک 4 دھرنے دیئے ہیں۔ اس جماعت کے دھرنے اکثر متشدد ہوتے ہیں۔ فرانس کے اندر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد اس سال کے آغاز مں ہی اس جماعت نے خبردار کیا تھا کہ حکومت نے اگر 17 فروری تک توہین رسالت ﷺ کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو وہ اپنا احتجاج دوبارہ شروع کرے گی۔ٹی ایل پی کے نئے سربراہ مولانا سعد رضوی نے اپنے والد اور تحریک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کے چہلم کے موقع پر کہا کہ ’ہم 17 فروری تک معاہدے پر عملدرآمد کے پابند ہیں، اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے تو اسے دور کرلینا چاہیے کیونکہ ہم عہد کرتے ہیں کہ 17 فروری کے بعد فیصلہ لینے میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔
لیکن یہ ڈیڈ لائن مزید وسیع کرتے یوئے ٹی ایل پی نے یہ تاریخ اپریل 2021 تک بڑھا دی تھی جس کا موجب حکومت کی جانب سے ایک معاہدہ تھا۔ تاہم حکومت نے تحریک لبیک کے مطالبات پر مشتمل قرارداد عید سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 7 اپریل کو میڈیا رپورٹس کے مطبق تحریک لبیک سے معاہدے کے حوالے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کی حکمت عملی پر غور کیا گیا، اور فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے لیے قرارداد پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی تجویز پربات کی گئی، اور فیصلہ کیا گیا کہ تحریک لبیک کے مطالبات پر مشتمل قرارداد عید سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اور معاہدے پر عملدرآمد کے لیے کمیٹی دیگر جماعتوں سے بھی بات کرے گی۔
تاہم 11 اپریل کو ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد تحریک لبیک نے ملک گیر دھرنے دے دیئے۔ ملک کی سڑکیں بند کردی گئیں۔ تحریک لبیک کے دھرنوں میں 400 کے قریب پولیس اہلکار زخمی جبکہ دو ہلاک ہوئے تو دوسری جانب تحریک لبیک کے 11 کارکنوں کی اموات ہوئی تھیں۔ جس کے بعد حکومت نے جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم بعد میں اس سے کیا گیا معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور قرارداد کو بحث کے لیئے پیش کیا گیا۔ جس کے بعد تحریک لبیک کے دھرنے ختم ہوئے۔
یاد رہے کہ اس سب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں یہ واضح کیا تھا کہ وہ فرانسیسی سفیر کو نہیں نکال سکتے کیونکہ انہوں نے اگر یہ کیا تو ہم سے یورپی یونین قطع تعلقی کر لے گی۔