سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا مسلسل پرچار کیا۔ ریاست مدینہ کے پرچار پر اگر ایک طرف مذہبی حلقوں کی جانب سے اُن پر تنقید کی گئی تو دوسری جانب کچھ مذہبی حلقوں نے اُن کی حمایت بھی کی۔
مذہبی حلقوں میں سب سے نمایاں نام ماضی میں تبلیغی جماعت سے منسلک مولانا طارق جمیل کا ہے جنھوں نے مسلسل ناصرف عمران خان اور اُن کی حکومت کی حمایت کی بلکہ کئی مواقع پر بنی گالہ اور وزیراعظم ہاؤس تشریف لا کر ان کے منشور کی حمایت بھی کی۔ مولانا طارق جمیل نے ٹی وی چینلز سمیت دیگر فورمز پر عمران خان کی مسلسل حمایت کی۔ حکمران جماعت اور ان کے کارکنوں نے اگر ایک طرف مولانا طارق جمیل کی حمایت کو اپنے سیاسی جلسوں میں استعمال کیا تو دوسری جانب مولانا طارق جمیل کی جانب سے حکمران جماعت کی مسلسل حمایت پر سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تنقید کی بنیادی وجہ مولانا طارق جمیل کی تبلیغی جماعت سے وابستگی تھی کیونکہ تبلیغی جماعت ہمیشہ سے پاکستان میں غیر سیاسی رہی۔
مولانا طارق جمیل کی بنی گالہ آمد پر شب دعا
ستائیسویں شب معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل ایک بار پھر عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ تشریف لائے اور اس بابرکت رات کی مناسبت سے دعا کی۔ مولانا طارق جمیل نے اپنی تقریر میں کہا کہ عمران خان واحد شخص ہے جنھوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا تصور دیا۔ طارق جمیل کی شب دعا کی تقریب کو لائیو نشر کرنے کے لئے ملک بھر کے مختلف اضلاع میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ٹی وی سکرینیں لگائی تھیں جہاں اس تقریب کو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے لائیو دیکھا۔
کیا مولانا طارق جمیل نے تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی وابستگی کا اعلان کیا؟
معروف دینی سکالر اور کالم نگار خورشید ندیم کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ میں مولانا طارق جمیل صاحب نے جو کچھ کیا، اس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی کا اعلان کر دیا ہے مگر اس عمل سے انھوں نے اپنی مذہبی ساخت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کیا اور اب آہستہ آہستہ وہ مذہبی طبقے سمیت دیگر مکتبہ فکر میں اپنا تشخص کھوتے چلے جائینگے اور آج کا واقع اس تسلسل کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوگا اور مجھے افسوس ہے کہ آج کا واقع اُن کے دعوت تبلیغ کے خاتمے کا بھی نقطہ آغاز ہے۔
مولانا طارق جمیل ماضی میں عمران خان کے بارے میں کیا کہتے تھے؟
جولائی 2021ء میں ایک نجی چینل کو انٹرویو دئیے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا کہ میں سیاستدان تو ہوں نہیں۔ کئی حکمرانوں کو 1992 سے مل رہا ہوں، سوائے بینظیر شہید کے، عمران خان مجھے ان سب حکمرانوں میں سب سے بہتر لگے، جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو مجھ سے پوچھا کہ اپنی نوجوان نسل کو دین اسلام کی راہ پر کیسے چلاؤں؟ عمران خان سوال کرتے کہ مولانا مجھے بتائیں کے کیسے میں نوجوانوں کی زندگی اللہ کے نبی ﷺ کی طرز ندگی سے جوڑوں ؟ اور یہ بات اس سے قبل مجھ سے کسی حکمران نے نہیں کی۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ باتیں میں نے کسی سے نہیں سنیں تو مجھے بڑا عجیب لگا کہ یہ بندہ مجھ سے کیا پوچھ رہا ہے۔ وزیر اعظم کہنے لگے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے بیان کالجوں میں کراؤں۔ آپ نوجوانوں کو سمجھائیں کہ زندگی بیکار نہیں، اس کا مقصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی میرے ذہن میں جو ہوتا ہے میں ان کو بتاتا رہتا ہوں۔ وہ اسے قبول کرتے ہیں۔ کئی باتوں میں حکومت کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ 72 سال کا کچرا ہے، اس کو تین سال میں کیسے صاف کیا جا سکتا ہے۔
کیا معروف مذہبی سکالر کی حمایت سے عمران خان کی جماعت کا مذہبی ووٹ بینک بڑھے گا؟
معروف دینی سکالر اور کالم نگار خورشید ندیم اس نکتے سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں کہ تبلیغی جماعت نے مولانا طارق جمیل سے بہت پہلے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، وہ تبلیغی جماعت کے مذہبی اجتماعات میں بطور عام کارکن شرکت کرتے ہیں۔ نہ اُن کی جماعت میں کوئی حیثیت ہے اور نہ اُن کو وہاں پر تقریر کا موقع دیا جاتا ہے، جو کچھ وہ کر رہے ہے وہ ذاتی حیثیت میں کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تبلیغی جماعت تاریخ میں ہمیشہ سے غیر سیاسی رہی ہے اور ابھی تک غیر سیاسی ہے لیکن اگر وہ کوئی سیاسی وابستگی رکھنا بھی چاہیں گے تو سیاسی وابستگی جمعیت علمائے اسلام کی طرف ہوگی کیونکہ تبلیغی جماعت علمائے دیوبند کا لگایا گیا ایک پودا ہے۔
مذہبی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ مولانا طارق جمیل کے سننے اور دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے اور مختلف ٹی وی چینلز اس بات پر متفق ہیں کہ اُن کی تقاریر کی ریٹنگ بڑی تعداد میں آتی ہے۔ مولانا طارق جمیل کے پیروکار پاکستان کے تعلیمی اداروں، مدارس، کاروباری حلقوں اور عام سماج میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے اور ان کا ایک اثر ہے۔ وہ کہتے ہیں تبلیغی جماعت سے منسلک لوگ رائیونڈ کے علماء کی پیروی کرتے ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مولانا طارق جمیل کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اگر انھوں نے عمران خان کے لئے ووٹ مانگے تو اس کا ائندہ الیکشن میں عمران خان کے جماعت کے سیاسی ووٹ بینک پر بہت مثبت اثر پڑے گا۔
عمران خان کا امریکی مخالف اور مذہبی بیانیے کے سیاسی وجوہات
سیاسی پنڈت اور گورننس کے ماہرین کی رائے ہے کہ عمران خان کے شفافیت، احتساب اور ریاستی مدینہ کا بیانیہ ان کی دور حکومت میں بری طرح ناکام ہوا اور ان کی حکومت میں ناصرف کرپشن کے سکینڈلز منظر عام پر آئے بلکہ اس کے ساتھ معیشت، گورننس بھی بری طرح متاثر ہوئی تو اس صورت میں اُن کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ امریکی مخالف اور مذہبی بیانیے کی ترویج کریں کیونکہ پاکستان میں ان نعروں پر لوگوں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے اور پاکستان کا ماضی اس چیز کا گواہ ہے۔
سبوخ سید کہتے ہیں کہ عمران خان عوام میں یہی بیانیہ لے کر چل رہے ہیں کہ مجھے اس وجہ سے نکالا کیونکہ امریکہ مجھے پسند نہیں کرتا تھا اور میں امریکی پالیسیوں کا ناقد تھا جبکہ مولانا طارق جمیل کو بھی تبلیغی جماعت سے نکالا گیا ہے تو اگر عمران خان امریکی مخالف بیانیہ آگے لے کر جائیں اور مولانا طارق جمیل اُن کے اس بیانیے کے لئے ملک بھر میں ووٹ مانگیں تو اس عمرن خان کی جماعت کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مذہبی سیاسی اور کالعدم جماعتوں میں امریکی مخالف سوچ پائی جاتی ہے جس میں سنی اور شیعہ دونوں تنظیمیں شامل ہیں اور ان کا بھی ملک میں ایک مخصوص ووٹ بینک ہے۔ وہ عمران خان کے امریکی مخالف بیانیے کی حمایت کرتے ہیں تو کالعدم اور مذہبی جماعتیں مولانا طارق جمیل کی وابستگی اور امریکی مخالف بیانیہ تینوں مل کر آئندہ انتخابات میں سیاسی منظر نامے کو بدل سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سبوخ سید نے کہا کہ کچھ دہائی پہلے سخت گیر مذہبی سوچ رکھنے والے زیادہ تر لوگ ووٹ نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ جمہوریت کو کفری نظام سمجھتے تھے لیکن مفتی شفیع صاحب اور دیگر علما نے ووٹ دینے کی حمایت میں ایک فتویٰ جاری کیا جس کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دیا اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا طارق جمیل، عمران خان کے امریکی مخالف اور ریاست مدینہ کے بیانیے کے لئے عوام سے ووٹ مانگیں اور اگر ان کے 50 فیصد چاہنے والے بھی آئندہ انتخابات میں ووٹ دیں تو اس کا الیکشن کے منظر نامے پر بڑا اثر ہوگا۔