نیشن اخبار کی مدیر رہیں، سیاست میں حصہ لیا، رکن قومی اسمبلی اور پھر وفاقی وزیر جیسے ذمہ دار عہدے پر فائز ہوئیں۔ 90ء کی دہائی میں پی ٹی وی میں کشمیر سے متعلق پروگرام کی اینکر بھی رہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ انہوں نے فیک نیوز یعنی من گھڑت اور جعلی خبر ٹویٹ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلائی ہوں۔ انھیں پہلے بھی متعدد بار انہیں اپنے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے پڑے۔ آج بھی انہوں نے پاکستانی عدلیہ سے متعلق امریکی اخبار میں شائع ہونے والا کارٹون شیئر کیا جس امریکی اخبار کا حوالہ انہوں نے دیا وہ اخبار 1924ء میں بند ہو چکا ہے۔
اس طرح کی خبروں معلومات پر پڑھے لکھے نوجوان ناصرف یقین لاتے ہیں بلکہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ کل بلاول بھٹو کی دوران عمرہ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی بعد ازاں وہ فیک ثابت ہوئی۔ چند ہفتے قبل فاطمہ بھٹو کا سابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں ایک جعلی کالم گردش کرتا رہا جس پر تنگ آکر فاطمہ بھٹو کو اخباری بیان جاری کرنا پڑا کہ انہوں نے ایسا کوئی کالم تحریر ہی نہیں کیا۔
علامہ اقبال کی بہو بیگم ناصرہ جاوید اقبال کی جعلی آڈیو گردش کرتی رہی جس پر انہیں ایف آئی اے سے رجوع کرنا پڑا۔ دراصل اخبار اور ٹی وی میں رپورٹر خبر فائل کرتا ہے تو ایڈیٹر پیشہ ورانہ عمل کے ذریعے خبر کے مختلف ذرائع پر تحقیق کرکے شائع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا گلی کا چوک چوراہا ہے، اس میں خبر کے ذرائع چیک کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
نوجوان خبر کے اصل ذرائع کی تحقیق کئے بغیر اسے آگے شیئر کر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں فیک نیوز کے ذریعے نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے اپنے سیاسی مقاصد پورا کرتیں ہیں۔ نوجوانوں کو غیر معیاری تعلیم اور سطحیت نے پراپیگنڈہ اور اصل خبر میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہی نہیں دی۔
اس میں ہم نام نہاد دانشوروں صحافیوں، سیاستدانوں، پروفیسر اور ٹیچرز قصوروار ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو اس سطح تک پہنچایا۔ اگر ایک استاد، پروفیسر، صحافی اور دانشور ہی بغیر تحقیق غیر مصدقہ اور من گھڑت خبریں معاشرے میں پھیلانے کا ذریعہ بنے گا تو پھر اس کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر ایسے معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔