اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کے امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہونے کے معاملے پر سینیٹر فیصل واوڈا نے آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات کی فراہمی کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو درخواست دے دی۔
اس معاملے پر جاری پروپیگنڈا کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے وضاحتی اعلامیہ جاری کیا گیا تاہم اب سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے معلومات کی فراہمی کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے وضاحتی اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا۔جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستانی سکونت اختیار کی۔1992 میں جسٹس بابر ستار کی والدہ نے سکول کھولا جس کے وہ لیگل ایڈوائزر رہے اور فیس وصول کی۔غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی وجہ سے جسٹس بابر ستار نے کو امریکہ کا مستقل ریڈیڈنسی کارڈ ملا تھا۔ 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں ۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے اپنی درخواست میں مَوقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جسٹس بابر ستار کیخلاف مہم سے متعلق پریس ریلیز جاری کی گئی تھی جس میں کہا کہ جسٹس بابر ستار نے جج بننے سے پہلے اپنے گرین کارڈ سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس کو آگاہ کردیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ جسٹس بابر ستار اور اس وقت کے چیف جسٹس کے درمیان گرین کارڈ سے متعلق ہونے والی خط و کتابت فراہم کی جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ گرین کارڈ سے متعلق خط و کتابت کو پبلک کرنے سے جسٹس بابر ستار کیخلاف پروپیگنڈا مہم ہمیشہ کیلئے دم توڑ جائے گی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف جاری سنگین قسم کی سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے اعلامیہ جاری کر دیا۔
عدالت نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت کردی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار کی والدہ 1992 سے سکول چلارہی ہیں۔ جس کے وہ لیگل ایڈوائزر رہے اور فیس وصول کی۔ جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے۔ جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستان سکونت اختیار کی۔ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی شہریت سوشل میڈیا مہم کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے۔ جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار، اُنکی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ لاء کالج اور ہاورڈ لاء کالج سے تعلیم حاصل کی۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی وجہ سے جسٹس بابر ستار کو امریکا کا مستقل ریڈیڈنسی کارڈ ملا تھا۔ 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔