اقتدار کے چار سالوں کی بدترین گورننس، مہنگائی اور بیروزگاری کے باوجود خان صاحب کی ملک گیر مقبولیت بڑی حیران کن ہے۔ انہوں نے سیاست کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے جو روایتی سیاست سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو بھرپور انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ عمران خان بطور کھلاڑی اٹیکنگ کرکٹ کھیلنے کے عادی تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز بھی تھا۔ اپنی اسی صلاحیت کا مظاہرہ وہ سیاست میں بھی بھی کر رہے ہیں۔ سیاسی پنڈت خان صاحب کے انداز سیاست سے حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔ عمران خان سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔
شہباز گل کے واقعے پر ہی نظر ڈال لیں۔ موصوف نے سیدھا سادھا فورسز کے رینک اینڈ فائل کو ٹارگٹ کیا تھا، مگر عمران خان نے کمال مہارت کے ساتھ شہباز گل پر مبینہ تشدد کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے اپنے چیف آف سٹاف کو مظلوم ثابت کر دیا۔ اس طرح ان پر لگا ہوا غداری کا لیبل پس منظر میں چلا گیا ہے۔ خاتون سیشن جج کو دھمکانے کا معاملہ ہو یا دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا الزام عمران خان بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے مقدمے کو عوامی سطح پر اٹھا کر تمام معاملے کو اپنے حق میں کر لیا ہے۔ ان کے ترجمان اور خاص کر سوشل میڈیا ٹیم بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے لیڈر کے بیانیے کو عوامی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں عام آدمی کی بہتری کے لیے تو کچھ اچھا نہیں سوچا اور نہ کیا۔ البتہ اپنے خاص دوستوں کو بہت نوازا ہے جو اس کڑے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران تمام ضمنی انتخابات ہارنے والے عمران خان پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بیس میں سے پندرہ نشستیں جیت کر بڑی مضبوط پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں۔ کراچی کا ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد ان کا کانفیڈنس لیول مزید بڑھا ہے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کی وجہ سے اسحاق ڈار کی وطن واپسی بھی کٹھائی میں پڑ چکی ہے۔ ایک وقت تھا لندن میں مقیم ن لیگ کے قائد عمران خان کو کسی گنتی میں ہی نہیں شمار کرتے تھے۔ آج وہ انہیں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو سبق سکھانا میاں صاحب کا مشن بن چکا ہے۔
باوجود اس کے خان صاحب سیاسی لحاظ سے بڑی مضبوط پوزیشن پر ہیں۔ لیکن بعض معتبر صحافی کچھ اور ہی تجزیہ کرتے ہیں۔ بقول ان کے آنے والے چند ہفتوں میں ان کی قسمت کا فیصلہ ان کی تاحیات نااہلی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کا اظہار عمران خان خود بھی تواتر کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ بقول ان کے کسی اہم فورم پر ان کی نااہلی کے ساتھ گرفتاری کا پلان بھی بن چکا ہے۔ وہ اشاروں کنایوں میں اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ درحقیقت جب عمران خان پاور میں تھے۔ اس وقت قانون سازی کے معاملات ہوں، اتحادیوں کو جوڑ کر رکھنا ہو یا اپوزیشن کو دیوار سے لگانا۔ یہ سارے امور عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ذمے لگا رکھے تھے۔ جس کی وجہ سے پاور بروکر ان سے بڑے نالاں تھے۔
درحقیقت پاکستان کی سیاست میں کبھی کوئی لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑ جھگڑ کر اقتدار کی مسند پر بیٹھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا اور نہ ہی آئندہ ایسا ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان کو بھی یہ بات جتنی جلدی سمجھ آ جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ ان کا انجام نواز شریف سے مختلف نہیں ہوگا۔
عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر انہیں نااہلی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی طرح خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ اپنے مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں مستقبل کی حکمت عملی پر تفصیل کے ساتھ مشاورت کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی دفاعی پوزیشن اختیار نہیں کرے گی۔
بقول عمران خان وفاقی حکومت کی طرف سے کسی بھی اقدام کی صورت میں کے پی کے اور پنجاب کی جانب سے وفاق کی طرف پیش قدمی کی جائے گی۔ اس طرح اسلام آباد میں موجود وزیر داخلہ کے مٹھی بھر دستے ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
یاد رہے کہ 25 مئی کو جب خان صاحب ایک بڑے جلوس کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔ تب ان کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کی سرکاری کمک بھی حاصل تھی۔ یہ ایک طرح سے صوبائی حکومتوں کی طرف سے وفاق پر چڑھائی کے مترادف تھا۔ مگر آج عمران خان 25 مئی کے لانگ مارچ کو زبردستی روکنے کے عمل کو تو ریاستی جبر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مگر وہ اپنی اداؤں پر غور نہیں کرتے کہ انہوں نے وفاقی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی۔ سپریم کورٹ نے بھی انہیں پریڈ گراؤنڈ تک اپنے کارکنوں کو محدود رکھنے کے احکامات دیے تھے۔ مگر ان کے ورکرز نے ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کرکے اعلیٰ عدلیہ کے احکامات ہوا میں اڑا دیے تھے۔ جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا پڑا۔
ممتاز صحافی نجم سیٹھی اس تمام معاملے کو لے کر کچھ اور ہی تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ چودھری پرویز الٰہی مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ دیں۔ وہ اپنا نفع نقصان دیکھ کر ہی کوئی ایسا فیصلہ کریں گے جو ان کے لیے سیاسی طور پر مفید ہوگا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی مضبوط ترین پلیئر ہیں۔ لہذا وہ کبھی ان کے خلاف نہیں جاہیں گے۔
اس تمام سیاسی ماحول میں ستمبر کے مہینے کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ن لیگ کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی بھی اسی مہینے متوقع ہے۔ جب کہ بقول فواد چودھری دس ستمبر تک حکومت کی رخصتی کا پلان بن چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں سیاست کا اونٹ آنے والے چند ہفتوں میں کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ سیلاب کی صورتحال کو اگر مدنظر رکھا جائے تو دو تین مہینے تک انتخابات کا انعقاد بہت ہی ناممکن دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ آدھا پاکستان اس وقت سیلاب جیسی ناگہانی آفت کا مقابلہ کر رہا ہے۔