واقعے کے مبینہ پس منظر کے بارے میں طاہر چوہدری ایڈووکیٹ نے اپنی پیشگی فیسبک پوسٹ پر لکھا کہ ایک خاتون انتظامیہ نے الزام لگایا کہ ان کی بہن ہفتہ وار آڈٹ رپورٹ جمع نہیں کرواتی رہی۔ ڈھائی لاکھ کی ہیر پھیر کی ہے۔ یہ خاتون کچھ دن پہلے یہاں سے جاب چھوڑ چکی تھیں۔ آج شوکت خانم والوں نے بلایا تھا کہ وہ آئے اور انکوائری بھگتے۔ وہ بلانے پر چلی گئی۔ لیکن انتظامیہ نے اسے محبوس کر لیا۔
ان خاتون نے تھوڑی دیر بعد مجھے دوبارہ کال کی کہ بہن سے بات ہوئی ہے۔ وہ لوگ اسے وہاں سے نہیں نکلنے دے رہے۔ اب میں خود بھی جا رہی ہوں۔ یہ خاتون (بڑی بہن) سرکاری ٹیچر ہیں۔ بعد میں ایک دو دفعہ پھر کال آئی ان خاتون کی۔ میں ریسیو نہیں کر سکا۔
اب دفتر سے نکلنے لگا تو ان خاتون کی ایک بار پھر کال آئی ہے کہ شوکت خانم انتظامیہ ان دونوں کو محبوس بنائے ہوئے ہے۔ جس پر میں انکی مدد کرنے پہنچا۔
نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ طاہر چوہدری نے بتایا کہ انہیں ان خواتین کے پاس لے جایا گیا۔ جب وہاں انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ وہ وکیل ہیں اور انکی جانب سے معاملہ دیکھنے آئے ہیں تو انہیں وہاں سے جانے کا کہا گیا۔ ایڈووکیٹ طاہر چوہدری کے مطابق انہیں وہاں معلوم ہوا کہ ہسپتال انتظامیہ اپنی سابقہ ملازمہ پر گھپلے کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا کلیم کر رہی تھی وہ اڑھائی لاکھ پر پہنچا جس پر اس کی بہن نے اڑھائی لاکھ کا چیک بطور ضمانت دینے کی آفر کی تاہم اس رقم کوانتظامیہ کی جانب سے انکے سامنے ہی 24 لاکھ کی خطیر رقم قرار دے دیا گیا جو سب کے لیے حیرانی کا سبب تھا۔ انہوں نے فیسبک لائیو بھی کیا، جس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے ایڈووکیٹ طاہر کو سیکیورٹی سٹاف نکالنا چاہتا ہے اور ویڈیو بنانے پر ان کا فون چھین لیتا ہے۔ ایڈووکیٹ طاہر چوہدری کے مطابق ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو بلا لیا گیا جس پر انہوں نے اپنے دوسرے فون سے خود بھی 15 پر کال کر دی۔ جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس کے ساتھ انہیں ایک کمرے میں بیٹھا دیا گیا جب کہ خواتین دوسرے کمرے میں رہیں۔ ایک لمبی بحث کے بعد انہیں جانے دیا گیا جب کہ انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ خواتین کو بھی ہسپتال سے جانے دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صبح مزید قانونی کارروائی کے بارے میں فیصلہ کریں گی۔
نیا دور کی جانب موقف کے لیئے شوکت خانم ہسپتال کے نمائندہ نمبرز پر رابطہ کیا گیا لیکن تاحال رابطہ نہیں ہوسکا