قتل کی سزا موت، چاہے ایک کریں یا ہزار۔ ایک انسانیت کا قتل پوری انسانیت کا قتل عام۔ مگر ریاست میں قتل و فساد افضل ترین جہاد ٹھہرا۔ علما خریدے گئے۔ ایک نوجوان نسل کو جہادی بنایا جس کی اب تیسری پیڑھی اسی نظریے کے فروغ میں سرگرم ہے۔ احمدی کافر، شیعہ کافر، بریلوی کافر۔۔ کرو ان کا قتل اور کماؤ جنت۔ ابھی تک کام پھر بھی بہتر انداز میں ہو رہا تھا۔ قتال ہدفی تھا۔ پھر نائن الیون کے بطن سے فدائین نے جنم لیا۔ ایک کافر کو جہنم واصل کرنے کی سعی میں سو پچاس سچے مسلمانوں کو بھی ناحق جاں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جنہیں ان ہی 'علما برائے فروخت' نے شہادت کی نوید دی۔ اور ان سے بھی ایک ہاتھ آگے کےعالم جنرل اسد درانی نے ایک فرمان قتل عام جاری کیا۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں ٹی ٹی پی نے 140 معصوم بچوں کا خون اس بے دردی سے بہایا کہ چنگیز خان بھی کانپ گیا مگر جنرل درانی نے فخریہ ڈھٹائی سے اس خون کی اس ہولی کو collateral damage قرار دے کر کہا کہ جی بڑے مقصد کی خاطر ایسے چھوٹے موٹے نقصان تواٹھانے ہی پڑتے ہیں۔
سب سے بڑا خوف جان کا۔ جب وہ ہی نہ رہا اور شہادت سے بدل دیا گیا ہو تو کیوں نہ بنے ہر کوئی شہید؟ اور جب اس شہادت کے راستے میں معصوم خون بھی شہادت ٹھہرایا گیا تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ خود کش حملہ شہادت کا اعلیٰ ترین درجہ کیونکہ اس میں فدائی کے علاوہ درجنوں یا سینکڑوں بے ضرر شہری جنہیں شہادت ہرگز مقصود نہیں، بھی شہادت کے درجے پر by default فائز ہو جاتے ہیں۔ تو پھر روک لو اگر روک سکتے ہو! کس کس کو روکو گے؟ یہاں تو ہرسچا مسلمان شہید ہونے کی آرزو میں حرام موت مر رہا ہے مثلاً ڈینگی، کورونا، وغیرہ کے ہاتھوں۔
مچھروں یا لال بیگوں کا صفایا بارہ گھنٹے کے لئے تو دوائیاں چھڑک کر کیا جا سکتا ہے مگر اس گندے جوہڑ اور غلاظت کے ڈھیر سے کوئی نہیں نمٹتا جو ان حشرات کی جائے پیدائش و پناہ ہے۔ یہ اتنے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں کہ ہر قسم کی جراثیم کش ادویات کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتے ہیں۔ پھر کسی قسم کے چھڑکاؤ سے بھی نہیں مرتے۔ ہر دن ان کی تعداد دگنی، تگنی، چوگنی ہوتی چلی جاتی ہے۔
2001 میں ہم نے آپریشن انڈیورنگ فریڈم Operation Enduring Freedom کا سپرے کیا۔
2002 سے 2006 تک ہم نے نئی دوا استعمال کی۔ اس بار آپریشن المیزان کیا۔ مگر اثر چنداں نہ ہوا۔ دہشت گردی بڑھتی ہی گئی جوں جوں آپریشنز کیے!
2008 میں ہم نے نیا برانڈ آزمایا۔ آپریشن زلزلہ۔ یہ بھی ناکام ہوا۔ 2007 سے 2009 تک تین مزید نئی ادویات استعمال کی گئیں؛ آپریشن شیر دل، آپریشن راہ حق اور آپریشن راہ راست۔ مگر مکھی، مچھر، لال بیگ بڑھتے ہی رہے۔ 2009 سے 2010 تک ہم نیا تجربہ کرتے رہے۔ ماضی کی تمام ادویات کا محلول تیار کیا اور اسے آپریشن راہ نجات کی شکل میں چپے چپے پر سپرے کیا۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات! دہشت گرد کسی بھی آپریشن سے بے مزا نہ ہوئے۔
2010 سے 2017 تک ہم نے پھر سپرے مہم شروع کی۔ اس بار آپریشن راہ شہادت، آپریشن خیبر اور آپریشن ضرب عضب (تیز کاٹنے والا) کیا لیکن الٹا ہم ہی کٹتے رہے۔ 2017 میں ہم نے پھر وہی بے اثر دوا آپریشن ردالفساد کی بوتل میں ڈال کر استعمال کی۔ نتیجہ وہی پرانا نکلا۔ اس کے بعد کوئی نئی مہم تو شروع نہ کی البتہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع کر دیے۔
بات چیت کمزور کا اور ٹھاہ ٹھاہ طاقتور کا ہتھیار۔ اس بات میں کیا کلام کہ ٹی ٹی پی کی طاقت کے آگے ریاست بے بس۔ آپریشنز اور مذاکرات کی بھرمار نے اسے منظم و مضبوط کیا۔ ایک نیا عزم، حوصلہ، ولولہ، جلا بخشی۔ اور ریاست خود دن بہ دن نحیف ہوتی چلی گئی۔ اس اثنا میں ان کے روحانی باپ افغان طالبان سارے عالم سے 20 برس تک لڑتے رہنے کے بعد اسے رات کی تاریکی میں بھگانے میں کامیاب ہوئے۔ جنہیں دنیا مسلسل 20 سال خطرناک ترین دہشت گرد ٹھہراتی رہی اور جن کے چنگل سے انسانیت کو رہائی دلانے کے لئے war on terror قسم کی دور کی کوڑی لے کر آئی، شکست خوردہ زخم چاٹتے مظلوم افغانوں کو ان ہی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر فرار ہو گئی۔
تو اب ان کے پاس نیا چورن ہے کچے اذہان کے لئے کہ دیکھو ایمان کی قوت سے پہلے انگریز، پھر روس اور اب امریکہ کو کیسے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ آؤ مل کر یہ معرکہ جبر و صداقت بپا کریں!
سوات میں جب ٹی ٹی پی نے دوبارہ زور پکڑا تو مقامی آبادی نے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ ریاست کا وطیرہ وہی کہ جی کوئی طالبان نہیں علاقے میں۔ الٹا ان لوگوں پر غداری کے مقدمے قائم کر دیے جنہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف آواز بلند کی۔ ماضی میں ان ہی لوگوں نے ریاست کے کہنے پر ٹی ٹی پی کے خلاف ہتھیار اٹھائے، اپنا خون دیا اور علاقے کو پرامن بنایا۔ اس کے بعد ریاست نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ پھر ٹی ٹی پی نے ان ہی لوگوں کو چن چن کر مارا۔
ان حالات میں کون کھڑا ہو گا ٹی ٹی پی کے خلاف؟ اور اب تو ہوا بھی ان کے حق میں ہے۔ امریکہ بھاگ گیا۔ ڈرون حملے اب ہوتے نہیں جو دہشت گردی کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار تھے۔ ڈالر کی سپلائی بند۔ بلوچستان میں شورش زوروں پر۔ اب یہ ٹی ٹی پی کی بیعت کر رہے ہیں۔ 24 جون کو نوشکی کے اسلم بلوچ گروپ اور 23 دسمبر کو مکران کے مرزا بلوچ گروپ نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ ایکا ملک کو فائدہ تو پہنچانے سے رہا!
دہشت گردی کا عروج دو بار پلٹ چکا۔ وہ جب کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب کہیں کوئی خود کش حملہ نہ ہو۔ اسی ٹی ٹی پی نے فوج کے دل یعنی جی ایچ کیو پر حملہ کیا۔ بحریہ، فضائیہ اور آئی ایس آئی کے کئی مراکز پر حملے ہوئے۔ بنوں کے سی ٹی ڈی مرکز والا واقعہ تو کچھ بھی نہیں۔ جنہوں نے دہشت گردی سے ہمیں بچانا تھا وہ خود دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔ کیا یہ ٹی ٹی پی کی فتح نہ ٹھہری؟ اب سوال یہ کہ دہشت گردی کا نیا وائرس جو ہر اینٹی بائیوٹک کے خلاف مدافعت دکھا چکا ہے، اس کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔ پھر سے ٹی ٹی پی کے پاؤں پکڑے جائیں یا نیا سپرے کیا جائے؟ جس ماحول میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے اسے ٹھیک کرنا تو تقریباً ناممکن ہے کیونکہ اس ملک کی بنیاد ہی مذہب پر رکھی گئی ہے۔ تو ہر ایک کا مذہب جداگانہ ہے۔ ایک طرف ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل۔ دوسری طرف خودکش حملے افضل ترین جہاد۔ تو کون کرے گا آپریشن سوچ کے خلاف؟