'ٹیکنوکریٹ حکومت کا کوئی امکان نہیں، فوج کی توجہ دہشت گردوں پر ہے'

'ٹیکنوکریٹ حکومت کا کوئی امکان نہیں، فوج کی توجہ دہشت گردوں پر ہے'
ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت آنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ اس وقت فوج کی تمام تر توجہ دہشت گردی کا مقابلے کرنے پر ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو آئے ہوئے صرف ایک ماہ ہوا ہے، وہ اس مختصر وقت میں اس طرح کا حساس فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یہ کہنا ہے صحافی اسد طور کا۔

یوٹیوب پر اپنے تازہ وی لاگ میں اسد طور کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر ابھی فیض حمید اور عمران خان کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم والے معاملے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آرمی چیف اہم عہدوں پر اپنے قابل بھروسہ لوگوں کو لے کر آ رہے ہیں۔ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف ایک بڑا آپریشن کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے ٹیکنو کریٹ حکومت کے بجائے نئے آرمی چیف کی ترجیحات میں اور بہت سے کام ہیں جنہوں نے انہیں مصروف کر رکھا ہے۔

اسد طور کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کو ان معاملات کے لیے سیاسی حمایت کی ضرورت ہے، اسی لیے آرمی چیف وزیراعظم سے ملے اور ان سے نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ بلانے کی سفارش کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ملکی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے پر بھی بات چیت ہوئی کیونکہ اب امریکہ پاکستان کو اس قسم کی کارروائی کے لیے کوئی امداد دینے کے موڈ میں نہیں ہے اور یہ اخراجات پاکستان کی حکومت کو خود برداشت کرنے پڑیں گے۔

نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں باجوڑ اور وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا جائے گا۔ آپریشن کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے تمام امور پہ تفصیل سے بات کی گئی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آپریشن محتاط ہو کر کیا جائے گا تا کہ عوام کے لیے مسائل کم ہوں۔ میٹنگ میں افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی۔ حنا ربانی کھر نے اپنے دورہ افغانستان کے بارے میں بریفنگ دی اور کمیٹی کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کابل میں اس وقت حقانی خاندان اور ملا عمر کے خاندان کے درمیان طالبان کی امارت پر تنازعہ چل رہا ہے۔ حنا ربانی کھر کے دورے کے دوران ان کی حقانی فیملی سے ملاقات ہوئی مگر ملا عمر کی فیملی نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ملا عمر کے جانشین حقانی گروپ کو پاکستان کی پراکسی کہتے ہیں۔