'جنرل باجوہ نے دھمکی دی، انسان بن جاؤ ورنہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا'

عمران خان نے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں سائفر کو مداخلت قرار دیا گیا اور ڈی مارش کا فیصلہ ہوا۔ انکوائری کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو سائفر بھیجا گیا۔ سائفر انکوائری پر تمام لوگ آرمی چیف سے ڈرے ہوئے تھے۔ کسی نے انکوائری کی ہمت نہ کی۔ میرے خلاف سائفر کیس میرا منہ بند کرنے کے لیے بنایا گیا۔ میری جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو پر تنقید امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کو بری لگی۔

03:57 PM, 30 Jan, 2024

نیا دور
Read more!

سائفر کیس میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید بانی تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔

آج سزا سنائے جانے سے قبل بانی پی ٹی آئی عمران خان نے خصوصی عدالت کے روبرو 342 کا بیان ریکارڈ کروایا۔ بیان ریکارڈ کروانے کے لیے عمران خان روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ اصل سازش کیسے ہوئی۔ عمران خان نے کہا کہ سائفر میرے آفس آیا تھا اور وزیر اعظم آفس کی سکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکرٹری کی ہوتی ہے۔ جبکہ کسی بھی دستاویز کی سکیورٹی کی ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری اور ملٹری سیکرٹری کے پاس ہوتی ہے، اس حوالے سے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر احمد کو انکوائری کا کہا تھا۔ ساڑھے 3 سال کے دوران بطور وزیر اعظم صرف سائفر کی ایک دستاویز غائب ہوئی۔

عمران خان نے الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم آفس سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا گیا۔ جنرل باجوہ سائفر معاملے سے ڈرا ہوا تھا۔ برگیڈیئر احمد میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ انکوائری کی ہے مگر سائفر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

عمران خان نے کہا 2 کروڑ 30 لاکھ ووٹوں سے منتخب وزیر اعظم کو نکالا گیا۔ منتخب وزیر اعظم کو نکالنے کی سازش میں جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو شامل تھے۔ کوئی بھی وزیر اعظم ہوتا تو اس سازش کے خلاف عوام میں چلا جاتا، میں نے بھی یہی کیا۔ سازش کا آغاز وہاں سے ہوا جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف کو تبدیل کیا تھا۔ جنرل باجوہ شہباز شریف اور نواز شریف سے ملے تھے۔ جنرل باجوہ نے حسین حقانی کو ہائر کیا۔ حسین حقانی نے ہمیشہ امریکہ میں پاکستان آرمی کے خلاف لابنگ کی ہے۔ حسین حقانی نے میمو گیٹ سکینڈل میں آصف زرداری کو ریسکیو کیا تھا۔ مجھے گرانے کے لئے حسین حقانی نے امریکی حکومت سے لابنگ کی جس کے لیے انہیں 35 ہزار ڈالر دیے گئے۔ حسین حقانی سے ٹویٹ کروائی گئی کہ بانی پی ٹی آئی امریکہ مخالف ہے اور باجوہ امریکی حامی ہے۔ حسین حقانی نے جنرل باجوہ کے کہنے پر میرے خلاف لابنگ کی۔ جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی کو ہمارے اتحادی توڑنے کے لیے استعمال کیا۔ آئی ایس آئی نے ہمارے اتحادیوں کو حکومت چھوڑنے کا کہا۔

عمران خان نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے جنرل باجوہ سے رابطہ کیا اور سازش سے متعلق ان کو آگاہ کیا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے آرمی چیف کو آئی ایس آئی کے کردار سے متعلق آگاہ کیا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جنرل باجوہ سے ملاقات کے لیے اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنائی۔ کمیٹی سے ملاقات کے بعد جنرل باجوہ نے کہا اپنی سمت درست کرو، ورنہ 12 سال کے لیے اندر جاؤ گے۔ مارچ 2022 کے پہلے ہفتے میں مجھ پر دباؤ ڈالا گیا۔ روس دورے سے قبل جنرل باجوہ سے بات ہوئی تھی۔ جنرل باجوہ نے یقین دلایا کہ روس دورے سے متعلق تمام کمانڈرز سے بات ہو گئی ہے۔

تین دن بعد جب روس سے واپس آیا تو شاہ محمود قریشی نے مجھے سائفر پیغام سے آگاہ کیا۔ سائفر پیغام اسد مجید کی جانب سے آیا تھا۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ایک حیرت انگیز پیغام ہے لیکن وزیر اعظم ہاؤس اور دفتر خارجہ کو نہیں بتایا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے فوراً اسد مجید کو فون کیا اور سائفر سے متعلق تفصیلات حاصل کیں۔ جب میں نے سائفر دیکھا تو میرے لیے یہ حیران کن بات تھی۔ سائفر کی وجہ سے بین الاقوامی اور سیاسی نقصانات کا خدشہ تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ایک امریکی آفیشل نے ملاقات میں وزیر اعظم کو ہٹانے کی بات کی۔ سائفر میں کہا گیا تھا اگر وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو سب کچھ ٹھیک رہے گا۔ ملاقات میں ڈونلڈ لو نے اسد مجید کو بتایا کہ وزیر اعظم نے روس کا دورہ اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اسد مجید نے روس دورے سے متعلق ڈونلڈ لو کو بتایا کہ تمام سٹیک ہولڈرز آن بورڈ تھے۔ میں نے جب کڑی سے کڑی ملائی تو پتہ چلا کہ اس سازش کے پیچھے جنرل باجوہ ہے۔ اسد مجید نے کہا کہ سائفر کو فوری طور پر ڈی مارش کرنا چاہیے۔

بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں عوام کے پاس گیا کیونکہ سائفر سازش صرف وزیر اعظم کی توہین نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کی توہین تھی۔ 22 اور 23 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں او آئی سی کانفرنس تھی۔ او آئی سی کانفرنس ختم ہونے پر میں نے عوام کو سائفر کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے اتحادیوں نے مجھے پیغامات بھیجے کہ حکومت چھوڑ دو۔ ہمارے اتحادیوں کو ایک ایک کر کے امریکی سفارت خانے لے جایا گیا اور ملاقاتیں کروائی گئیں۔ خیبر پختونخوا میں ہمارے وزیر عاطف خان کو پشاور میں امریکی قونصل خانے بلایا گیا۔ عاطف خان کو کہا گیا کہ اگر عدم اعتماد آئی تو آپ نے وزیر اعلیٰ محمود خان کے خلاف ووٹ دینا ہے۔ اس دوران میری جنرل باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ جنرل باجوہ سے کہا اگر حکومت گرائی گئی تو پاکستانی معیشت ڈوب جائے گی۔ آنے والی حکومت سیاسی عدم استحکام کو نہیں سنبھال سکے گی۔ اگر سازش کے تحت میری حکومت گرائی گئی تو میں عوام کے پاس جاؤں گا۔ باجوہ نے پھر جھوٹ بولا کہ وہ چاہتا ہے کہ میں حکومت قائم رکھوں۔ شوکت ترین نے بھی باجوہ کو سمجھایا کہ سیاسی عدم استحکام سے معاشی بحران کھڑا ہو گا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں عوامی جلسے میں بتایا کہ پاکستان کو خطرات ہیں لیکن میں اپنے الفاظ میں محتاط تھا، میں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ جلسے میں جو کاپی لہرائی وہ سائفر کی پیرا فیز کاپی تھی۔ میں نے باجوہ کو بتایا اگر حکومت گرائی تو میں عوام کو سارا پلاٹ بتا دوں گا۔ جنرل ندیم انجم میرے پاس آئے۔ انہوں نے کہا سائفر سے متعلق باہر کوئی بات نہیں کرنی۔ سائفر صرف جنرل باجوہ کے لیے تھا، ان کے علاوہ حکومت گرانے کی اہلیت کسی اور کے پاس نہیں تھی۔ جنرل باجوہ واحد طاقت تھی جس نے میری حکومت گرائی۔ سندھ ہاؤس میں ہمارے ایم این ایز کو خریدنے کے لیے 20، 20 کروڑ قیمت لگائی گئی۔ امریکی سفارت خانے اور ایجنسیز کے کہنے پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں سائفر پر بات کرنے سے اجتناب کیا۔ پاکستانی عوام نے جو ردعمل دیا وہ تاریخ میں کبھی بھی نہیں ہوا۔ لوگ بڑی تعداد میں نکلے اور میری حمایت کی۔ پی ڈی ایم حکومت میں ضمنی انتخابات کے دوران ہم نے 30 سے زائد نشستیں حاصل کی۔

22 اگست کو صدر ہاؤس میں میری جنرل باجوہ سے پھر ملاقات ہوئی۔ اس وقت معیشت ڈوب رہی تھی۔ مہنگائی ریکارڈ 38 فیصد پر تھی۔ گروتھ ریٹ 6 اعشاریہ 17 فیصد سے گر کر منفی میں چلی گئی۔ جنرل باجوہ نے ملاقات میں کہا کہ سائفر پر بات نہیں کرنی اور میر جعفر اور میر صادق کہنا بند کرو، آپ کو دو تہائی اکثریت دیں گے۔ 80 فیصد آرمی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ اگر تم نے سائفر پر بات کی تو 30 سیٹوں تک محدود کر دیں گے اور کیسز بھی بھگتو گے۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ تمہارے اوپر آفیشل سیکرٹس ایکٹ لاگو ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری حکومت گرنے کے بعد پاکستان میں تاریخ کا بدترین معاشی بحران پیدا ہوا۔ جنرل باجوہ نے مدت ملازمت میں توسیع کے لیے شہباز شریف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ میری حکومت گرائیں گے۔ میری حکومت گرنے کے بعد شہباز شریف کے 24 بلین کرپشن کیسز معاف کیے گئے۔ پی ڈی ایم حکومت پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ وزارت عظمیٰ کے دوران رجیم چینج کی انکوائری کا مطالبہ کرتا رہا۔ کابینہ نے جنرل طارق کو سائفر انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ کیس کی جانچ پڑتال کے بعد جنرل طارق نے ہاتھ کھڑے کر دیے کیونکہ آرمی چیف پر انگلی اٹھتی تھی۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں سائفر کو مداخلت قرار دیا گیا اور ڈی مارش کا فیصلہ ہوا۔ انکوائری کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو سائفر بھیجا گیا۔ سائفر انکوائری پر تمام لوگ آرمی چیف سے ڈرے ہوئے تھے۔ کسی نے انکوائری کی ہمت نہ کی۔

عمران خان نے کہا جنرل باجوہ نے مجھے اور شاہ محمود قریشی کو دھمکی دی کہ انسان بن جاؤ۔ میرے خلاف سائفر کیس میرا منہ بند کرنے کے لیے بنایا گیا۔ میری جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو پر تنقید امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کو بری لگی۔ میری پارٹی نے طاقت ور آرمی چیف کے خلاف سٹینڈ لیا۔ اگر مجھے سزا دی گئی تو کوئی بھی وزیر اعظم کبھی بھی پاکستان کے مفاد کے حق میں کھڑا نہیں ہو گا۔ کوئی بھی وزیر اعظم امریکہ کے غیر منصفانہ مطالبات کے خلاف کھڑا نہیں ہو گا۔ جنرل مشرف اور میں گواہ ہیں کہ کس طرح ایک فون کال پر پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکا گیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں 85 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ آصف زرداری اور نواز شریف کے دور حکومت میں 400 ڈرون حملے ہوئے۔ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں کہ ایک اتحادی ملک اپنے ہی اتحادی ملک پر بمباری کرے۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف ایک لفظ مذمت کا نہیں کہا۔ نواز شریف اور آصف زرداری کو ڈر تھا کہ امریکہ ان کو اقتدار سے باہر کر دے گا۔ سائفر کیس تعین کرے گا کہ کوئی بھی پاکستانی وزیر اعظم ملکی مفاد کے لیے کھڑا ہو گا یا نہیں۔

بانی پی ٹی آئی کے تفصیلی بیان پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سوال کیا کہ سائفر کہاں ہے؟ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ سائفر آفس میں تھا اور اس سے متعلق میں نے بیان میں بتا دیا ہے۔ جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے عمران خان کے 342 کے بیان کے بعد مختصر فیصلہ سنایا اور عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا دے دی۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار اعجاز احمد نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلے دن سے خبردار کر رہا تھا کہ سائفر کیس تکنیکی طور پر سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ باقی کیسز سے مختلف ہے۔ آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت میں چلنے والا یہ پہلا کیس ہے اس لیے اس کے سنجیدہ نتائج آ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا دفاع بھی بہت کمزور تھا۔ توشہ خانہ کیس ہو، انتخابی نشان والا معاملہ ہو یا پھر سائفر کیس، پی ٹی آئی وکلا قانونی نکات پر کمزور تیاری کے ساتھ عدالتوں میں آتے ہیں۔ وہ کیس کو قانونی سے زیادہ سیاسی بنیادوں پر لڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ مختلف نکلتا ہے۔

اس فیصلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے کیس کو جس طرح خفیہ رکھ کر چلایا گیا، عمران خان کا حق دفاع ختم کیا گیا تو اس کے بعد فیصلے پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے جج ابوالحسنات کے سامنے رویے نے بھی جج کو جذباتی کیا جس کے بعد فیصلہ سنانے میں جج صاحب جلد بازی سے کام لے گئے۔ پاکستان کی سیاست میں بدقسمتی سے اگرچہ اسٹیبلشمنٹ بھی ملوث رہی ہے، اس لیے بھی جلد بازی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے وفادار ووٹر کی وجہ سے اب عام انتخابات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے مزید مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے ان دو پارٹیوں کے خلاف پڑنے والا ووٹ اب اور بھی بڑھ جائے۔ پی ٹی آئی کا ہارڈ کور ورکر الیکشن کا بائیکاٹ کر کے اپنا ردعمل ظاہر کر سکتا ہیں۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت پارٹی کے ہارڈ کور ورکر کے لیے ایلین ہے اس لیے وہ اس قیادت سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔

مزیدخبریں