پاکستان میں تقریباً ہر سال ہی ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ دس سال میں ہونے والے چند ایسے قتل کے واقعات جنہیں بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی اور ملک کی دنیا بھر میں بدنامی کا باعث بنے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
سلمان تاثیر قتل، 2011
4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر، جو کہ اس وقت گورنر پنجاب تھے، اسلام آباد کی کہسار مارکیٹ میں واقع ایک ریستوران سے باہر آ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ ان کے اپنے ہی پولیس گارڈ ممتاز قادری نے انہیں 27 گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ ممتاز قادری نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ مقدمے میں اس نے دعویٰ کیا کہ سلمان تاثیر نے توہینِ مذہب کی تھی جس کا وہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا۔ عدالت نے اس کو کئی سال اپنا مقدمہ ثابت کرنے کی گنجائش دی لیکن یہ ناکام رہا۔ سلمان تاثیر کا قصور محض اتنا تھا کہ انہوں نے ایک اور توہینِ مذہب کے الزام میں پھنسی مسیحی خاتون کو انصاف دلانے کی کوشش کی تھی۔ ممتاز قادری نے ان کو قتل کیا اور پھر اپنا جرم ثابت ہونے اور مقتول کا جرم ثابت نہ کر پانے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر 29 فروری 2016 کو پھانسی لگا دیا گیا۔ 2018 میں آسیہ بی بی کو بھی عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا کیونکہ عدالت میں اس کے خلاف بیانات دینے والے حضرات کے بیانات ہی آپس میں میل نہیں کھاتے تھے۔
شہباز بھٹی، 2011
سلمان تاثیر کے قتل کے صرف دو ماہ بعد 2 مارچ 2011 کو وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے لی اور الزام لگایا کہ وہ بھی توہین کے مرتکب ہوئے تھے۔ حقیقتاً شہباز بھٹی نے پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین پر تنقید کی تھی۔ یہ بھی آسیہ بی بی کے کیس میں دلچسپی لے رہے تھے لہٰذا طالبان نے ان کا قتل کر دیا۔ شہباز بھٹی قتل کے ملزمان آج تک گرفتار نہیں ہو سکے۔
راشد رحمان، 2014
مئی 2014 میں ملتان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل راشد رحمان کو ان کے دفتر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ راشد رحمان بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کے وکیل تھے جنہیں توہینِ مذہب کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔ راشد رحمان کو عدالت کے اندر اور باہر متعدد مواقع پر دھمکیاں دی گئیں کہ وہ جنید حفیظ کی وکالت سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ 7 مئی 2014 کو چند مسلح افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر ان کو قتل کر دیا جب کہ ان کے دو ساتھی وکیل اس واقعے میں زخمی ہوئے تھے۔
شمع بی بی اور شہزاد مسیح، 2014
راشد رحمان واقعے کے چند ہی ماہ کے بعد دو میاں بیوی شمع بی بی اور شہزاد مسیح جو کہ لاہور کے نواحی علاقے کوٹ رادھا کشن میں ایک اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے تھے کو توہینِ مذہب کا الزام لگا کر آگ میں پھینک دیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق شمع بی بی اور شہزاد مسیح نے بھٹہ مالکان سے اپنی اجرت کی رقم کا تقاضہ کیا تو ان دونوں میاں بیوی پر توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر دیگر مسلمان مزدوروں کو مشتعل کیا گیا، جنہوں نے ان دونوں میاں بیوی کو بھٹے میں ہی بھڑکتی آگ میں پھینک کر زندہ جلا دیا تھا۔ اس قتل کے مقدمے میں پانچ افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جن میں سے بعد ازاں مئی 2019 میں دو افراد کو لاہور ہائی کورٹ نے بری کرنے کا فیصلہ دیا جب کہ تین کی سزائے موت برقرار رکھی گئی تھی۔
مشعل خان، 2017
اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں سینکڑوں مشتعل طلبہ نے ہجوم کی شکل میں اپنے ایک ساتھی طالبِ علم پر گستاخی کا الزام لگائے جانے پر اس کو گولی مارنے کے بعد اکٹھے ہو کر قتل کر دیا تھا۔ مشعل خان پر الزام تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب کی ہے لیکن FIA کو اس کی پروفائلز کے فورنزک آڈٹ کے باوجود اس کی جانب سے توہین کیے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ 7 فروری 2018 کو مشعل قتل میں ملوث عمران علی نامی شخص کو جس نے اس قتل کی ذمہ داری خود قبول کی تھی، سزائے موت سنائی گئی، پانچ دیگر مجرموں کو عمر قید، جب کہ 25 کو چار، چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
چار ملزمان مفرور تھے جن کو بعد میں گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور ان میں سے دو کو عمر قید کی سزا دی گئی جب کہ باقی دو کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔
پروفیسر خالد حمید، 2019
اسوسی ایٹ پروفیسر خالد حمید بہاولپور کے صادق اجرٹن کالج میں محکمہ انگریزی کے سربراہ تھے۔ ان کو ان کے ایک شاگرد نے ان کے دفتر میں چاقو کے وار کر کے قتل کیا۔ اس قاتل کا الزام تھا کہ خالد حمید نئے آنے والے شاگردوں کو دی جانے والی ایک Welcome Party کے منتظم تھے جو کہ ابھی ہونا باقی تھی۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ مخلوط پارٹی نہیں ہونی چاہیے جس پر اس کی خالد حمید سے جماعت کے اندر ہی بحث ہوئی اور اس نے ان پر چاقو سے حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا۔
یہ کسی صورت بھی ایک مکمل فہرست نہیں۔ پاکستان میں اب تک 100 سے زائد افراد کو توہین کا الزام لگا کر قتل کیا جا چکا ہے اور بدھ 29 جولائی کو پیش آنے والے واقعے سے ظاہر ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کا یہ رجحان مستقبل قریب میں کم ہونے کے کوئی امکانات موجود نہیں۔