امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹویٹ میں کہا گیا کہ ہم امریکی شہری طاہر نسیم کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہیں، جو آج پاکستان میں کمرہ عدالت کے اندر مارے گئے۔
ٹویٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر کارروائی کریں اور ایسی اصلاحات لائیں جو اس طرح کے شرمناک سانحہ کو دوبارہ ہونے سے روکیں۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی ایک عدالت میں توہینِ مذہب کیس میں نامزد ایک ملزم کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ ایڈیشنل سیشن جج شوکت اللہ کی عدالت میں بدھ کو پیش آیا۔ تھانہ سربند کی پولیس پشاور کے علاقے اچینی بالا کے رہائشی طاہر نسیم کو عدالت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس لائی تھی جہاں پر ان کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمے کی سماعت ہونا تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج شوکت اللہ کی عدالت میں کیس کی سماعت جاری تھی جب اس دوران ایک شخص نے پستول نکال کر جج کے سامنے ملزم طاہر احمد پر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ سے طاہر نسیم موقع پر ہلاک ہو گئے۔
پولیس نے فائرنگ کرنے والے ملزم کو واقعے کے فوری بعد کمرہ عدالت سے حراست میں لے کر قانونی کارروائی اور تفتیش کے لیے تھانے منتقل کردیا۔
پولیس کے مطابق خالد نامی ملزم پشاور کا ہی رہائشی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے طاہر نسیم کو توہینِ مذہب کی وجہ سے ہی قتل کیا ہے۔ ملزم نے پولیس کو بتایا ہے کہ انہیں مذکورہ شخص کو قتل کرنے کے حوالے سے خواب آیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق مقتول طاہر نسیم نے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر آخری نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس پر ان کے خلاف 2018 میں تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 195 سی کے تحت توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
واقعے کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد علی گنڈاپور نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے۔
دوسری جانب اتنے حساس مقدمے میں مسلح شخص کے عدالت آنے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کمرہ عدالت میں ہونے والے اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین منسوخ کیے جائیں۔