غیر ملکی میڈیا بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایل این جی نے رواں ہفتے 15 ڈالر فی برطانوی تھرمل یونٹ (بی ٹی یو) میں ستمبر کی ترسیل کے لیے چار کارگو خریدے ہیں جو اس معاملے سے واقف ذرائع کے مطابق 2015 میں ملک میں درآمدات کے آغاز کے بعد سب سے مہنگے ہیں۔
پاکستان نے اسپاٹ خریداری کے تحت ستمبر کے لیے ایل این جی کے مہنگے ترین سودے کیے ہیں، ستمبر کے لیے ایل این جی کے چار کارگوز خریدے جائیں گے جن کے تحت فی ایم ایم بی ٹی یو ایل این جی اوسطاً 15.36 ڈالر میں پڑے گی۔
مہنگی قیمتیں پاکستان کے لیے ایک دھچکہ ہیں جس نے دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر ایل این جی کی درآمد کی حکمت عملی کو اس بنیاد پر تبدیل کیا کہ مستقبل قریب میں ایندھن وافر مقدار میں دستیاب اور سستی ہوگی جیسا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہورہا تھا۔
رواں سال اس میں بدلاؤ آیا ہے اور بلومبرگ کے حساب کتاب کے مطابق ایشین ایل این جی کے لیے موجودہ قیمت 10 سال کی اوسط قیمت سے تقریباً 67 فیصد سے زیادہ پر تجارت ہورہی ہے۔ جہاں گھریلو صارفین فی الحال درآمدی گیس کی ہنگامہ خیز قیمتوں سے محفوظ ہیں، اسلام آباد میں حکومت ان اضافی قیمتوں میں سے کچھ ضوابط کو تبدیل کرنے پر غور کررہی ہے۔
درآمد کنندہ نے ستمبر کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں بُک کیے گئے کارگوز کے ایک ٹینڈر کو اس امید کے ساتھ ختم کردیا تھا کہ قیمتیں کم ہوں گی۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے ان کارگو کے اصل صارف ہوں گے جس کے بغیر یہ خطرہ تھا کہ اس ملک میں منساب مقدار میں بجلی نہیں ہوگی۔
قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قدرتی گیس کی عالمی سطح پر فراہمی میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ درآمد کنندگان آسانی سے دستیاب ایندھن کی محدود مقدار کی وجہ سے خریداری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
یورپین بینچ مارک، ڈچ گیس کی ریکارڈ سطح پر تجارت ہورہی ہے کیونکہ خطے کے ممالک اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔