ایسا نہیں ہے کہ یہ نعرے آج لگتے ہوں اور موجودہ کوئی صوبائی یا وفاقی سرکار اس کی ذمہ دار ہو۔ جس طرح ایک دانشور کے بقول جب سے مملکتِ خداد معرض وجود میں آئی ہے تب سے یہاں جمہوریت اور اسلام خطرے میں ہے۔ ویسے ہی گوادر میں جس کسی شخص سے بھی پوچھیں انھوں نے بچپن سے بوڑھاپے تک گوادر کی دیواروں پر انہی نعروں کو دیکھا اور سنا ہے کہ گوادر کو پانی اور بجلی دو۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ کبھی گوادر کو عمان کا امیر ترین صوبہ ہونے کا درجہ حاصل تھا لیکن اب یہ پاکستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ کئی دہائی پہلے یہ شہر جب چند گھرانوں پر مشتمل، ماہیگیروں کی ایک بستی تھا ،تب بھی پیاسہ تھا اور اب جب ایک میگا پروجکٹ( سی پیک) کا شہر ہےتو وہ اب بھی پیاسہ ہے۔
گوادر کی سیاست رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور سرکاری ٹھیکوں کے گرد گھومتی ہے جن پر صرف چند ایسے طبقات کا حق ہے جو براہ راست سردار تو نہیں ہیں مگر سرکار کے جگری یار ہیں۔ اس لیے گوادر کے لیے ہر منصوبہ اوپر سے بن کر آتا ہے۔ کب باڑ لگانی ہے، کب زمینوں کا کاروبار اور خرید و فروخت کے لیے ماحول سازگار کرنا ہے وغیرہ وغیرہ سب کچھ
طے شدہ ہوتا ہے۔ اسی لیئے یہاں کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنماء سے کسی بھی منصوبے سے متعلق سوال کریں تو اسے پتہ ہی نہیں ہوگا۔
گوادر میں مسلسل احتجاجوں اور بنیادی ضروریات زندگی کی فقدان کی وجہ سے اب یہ تاثر دن بہ دن عوامی بے چینی میں اضافہ کر رہا ہے کہ گوادر کا اصل ماسٹر پلان یہی ہے کہ شہر کی مقامی آبادی کو مکمل طورپر بے دخل کردیا جائے۔ اس سے پہلے شہر کو باقی علاقوں سے الگ کرنے کے لیئے باڑ لگانے پر کام ہورہا تھا جسے شدید عوامی احتجاج کے بعد روک دیا گیا مگر بقول انتظامیہ باڑ لگانا گوادر ماسٹر پلان کا حصہ تھا۔ اب کہ جب باڑ لگانے کا کام تو رک گیا ہے مگر شہریوں کے لئے زندگی ایسے اجیرن کردی گئی ہے کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یا تو ایک منصوبے کے تحت شہر کو دور لے جاکر بسایا جائے یا ایسے خود ساختہ حالات پیدا کیئے جائیں گے جس سے مقامی آبادی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائے۔
شہر کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ تھا۔ اب ماہی گیر طبقہ مکمل مایوسی کا شکار ہے۔ اسی طرح کشتی سازی سے وابستہ مزدور بھی اپنے قدرتی مقام کو اجڑتے دیکھ رہے ہیں۔ سیکیورٹی کے حالات کس قدر سنگین ہیں وہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے میرین ڈرائیو پر بانی پاکستان کا نصب مجسمے پر آرمی کی ایک ٹیم چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتی ہے۔ شہر میں وی آئی پی موومنٹ ہر چند گھنٹوں بعد ایسے چلتی ہے کہ مقامی لوگوں کے لیے سڑکیں مکمل بند کردی جاتی ہیں۔
گوادر کے شہریوں کے لیے ہر گزرتا دن ایسے ہے جیسے وہ ریاست کی نظر میں مشکوک سے مشکوک تر ہوتے جارہے ہیں اور لوگوں کی نظر میں ریاستی پالیسیاں مشکوک ترین ہوتی جارہی ہیں۔ شہری پچھلی کئی دہائیوں سے پانی دو بجلی دو کہہ رہے ہیں اور یونیورسٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر پروجیکٹ بنتے ہیں باڑ لگانے کی، بندرگاہ تک جانے والی کشادہ سڑکوں کی اور مختلف ایسی عمارتوں کی جن سے ناں تو پانی مل سکتا ہے ناں ہی بجلی۔
گوادر کی مثال ایسی ہے جیسے بلوچستان کے کسی ایم پی اے کا پی ایس ڈی پی میں شامل کوئی منصوبہ جس کا ٹھیکہ وہ اپنے کسی قریبی دوست کو دلواکر اس سے کمیشن وصول کرے اور پھر اگلے بجٹ میں دوبارہ اسے شامل کروائے۔ یہاں صرف منصوبے بنتے، اعلانات ہوتے اور بیانات آتے دیکھتے ہیں مگر ایک عام شہری کی زندگی میں کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ شہر اور یہاں کے منصوبے ریاست کے اندر کسی اور ریاست کے پاس ہیں اور وہ خاندانی ٹھیکیدار ہیں اس لیے چاہتے ہی نہیں کہ کبھی کوئی منصوبہ پائیہ تکمیل تک پہنچے۔ جب جب لوگ روتے رہیں گے تب تب بجٹ پاس ہوتا رہے گا۔
گوادر میں نا تو پینے کو پانی ہے نا بجلی، نا تعلیمی ادارے اور نا ہی صحت کی سہولیات لیکن پھر بھی گوادر ترقی کر رہا ہے۔ اب یہ جو مظاہرین برقعہ پوش خواتین گھروں سے نکلتی ہیں وہ شاید اس لیے نہیں کہ انھیں پانی ملے گا یا بجلی کا بحران ختم ہوگا بلکہ صرف اس لیے کہ اس لفظ' ترقی' سے انھیں شدید قسم کی نفرت ہونے لگی ہے۔ یہ ترقی اب انھیں اپنی زمین سے بے دخل ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ گوادر میگا پروجیکٹ کے کئی معلوم و نا معلوم نقشوں میں اب ایک نقشہ جو گوادر کے شہریوں کے دل و دماغ میں چھپ چکا ہے وہ ہے ان کی بے دخلی کا نقشہ ہے۔