کیا طالبان اب پہلے جیسے نہیں رہے؟ یہ سوال آج کی تاریخ میں اہم اس لئیے ہے کہ طالبان ایک بار پھر افغانستان کے بیشتر حصے پر قابض ہوچکے ہیں اور وہاں مقامی سطح پر اسی طرز کے نظام کو نافذ کررہے ہیں جیسا کہ 1996-2001 کی طالبان حکومت کے دوران تھا۔ میرے ذہن میں دہشت اور خوف تب سے زیادہ بڑھنے لگا کہ جب خبر آئی کہ افغانستان میں امریکی فوج کے ایک مترجم کا سر قلم کردیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اکیسویں صدی میں رہتے انسانوں کے بنیادی حقوق کے تقاضوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ابھی یہ واقعہ پرانا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک لوکل کامیڈین کے قتل کی خبر آن پہنچی۔ جس کا قصور یہ تھا کہ وہ طنز و مزاح سے لوگوں کو ہنساتا تھا۔
میں اقتدار کے ایوانوں سے تھوڑا ہی دور ایک پرسکون کیفے میں بیٹھا پرامن پاکستان اور اس کے لئیے دی گئی قربانیوں کا سوچ کر پریشان اس بات پر تھا کہ ہمیں کہیں پھر سے وہ دن دیکھنے نا پڑجائیں کہ ہمارا ہی وجود ایک بار پھر بم بارود اور گولیوں کی بو سے آلود ہو جائے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ طالبان اب بدل چکے ہیں میرے ذہن میں کئی سوال پیدا کرتا ہے جس کا تعلق افغانستان اور اس خطے کے مستقبل سے جڑا ہے۔ ابھی ایک روز پہلے ہی میں اپنے دفتر میں بیٹھا اس معلومات کی کڑیاں ملا کر خبر بنا رہا تھا کہ افغانستان کے شمالی صوبہ 'بلخ میں قابض طالبان نے علم و ادب کے کتابچے تلف کئیے ہیں، اور لوگوں کو ان سخت قوانین پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو 1996 سے 2001 تک طالبان کی افغانستان میں حکومت کے دوران نافذ تھے۔
وائس آف امریکہ پر چھپی ایک یاداشت ہمیں 1994 کے افغانستان کے صوبے خوست کے دہشت زدہ حالات میں لے جاتی ہے جہاں قبضے کے بعد طالبان نے سخت شرعی قوانین نافذ کرکے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ خوست صرف ایک مثال ہے، اس کے بعد یہ حالات کابل کندھار سمیت پورے افغانستان اور پھر پورے خطے نے دیکھے۔ سینیما گھر مسجدوں اور مدرسوں میں تبدیل ہوگئے، بچوں اور بچیوں کے اسکول مستقل بند کردئیے گئے۔ موسیقار اور ادیب سرعام گولیاں مار کر قتل کئیے گئے، عدالت کا تصور نہیں تھا مگر ہاتھ، پاؤں اور گلے کاٹنے کی سزائیں رائج تھیں، جس کا جہاں دل کرتا تھا کسی بھی انسان کا قتل کردیتا تھا، مردوں کو داڑھی کٹوانے کی اجازت نہیں تھی، جبکہ خواتین گھروں میں قید کردی گئی تھیں، ان مسائل سے ذرا آگے بڑھیں تو کابل کی حکومت سے کوئی ایک ادارہ جو ڈھنگ سے چل گیا ہو؟ کوئی ایک ادارہ؟ اور اب ان حالات کو خود پر لے کر صرف ایک لمحے کے لئیے سوچیں، اگر پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوجائیں، کیا آپ کو یہ قبول ہوگا؟
ہمیں طالبان کی سادہ زندگی کی مثالیں تو دی جاتی ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ طالبان کی حکومت میں کابل سے اٹھتی بھوک اور بدحالی کی آہ و پکار پوری دنیا نے سنی۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں یکسر کمی کو طالبان کی کامیابی بنا کر پیش کیا جاتا ہے مگر یہ بھی تو بتائیں کہ خواتین کا گھر سے نکلنے تک پر پابندی تھی۔ خواتین سماجی زندگی کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں کسی بھی طرح کا حصہ نہیں لے سکتیں تھیں۔ کیا آج کا افغانستان جہاں ہر سطح پر خواتین کے لئیے کم از کم تیس فیصد کوٹہ موجود ہے، وہ طالبان کی حکومت کو ذہنی طور پر تسلیم کر پائے گا؟
پھر ہم کیوں طالبان کو افغانستان پر زبردستی مسلط کرنے پر بضد ہیں جب کہ ہمارا دامن پہلے ہی ان الزامات سے بھرا پڑا ہے کہ طالبان ہماری پروڈکٹ ہیں۔ ہم اگر اس معاملے کو امریکی عینک سے نا بھی دیکھیں تو اب نا ہی روس نامی کسی ریاست کو گرم پانیوں تک پہنچنا مقصود ہے اور نا ہی افغان ہمارے خلاف کسی پراکسی کا حصہ بن کر خطے کو نقصان پہنچانے کے کسی خفیہ منصوبے کا زیادہ دیر تک حصہ رہ سکتے ہیں۔
تب ہماری سب سے بڑی غلطی ایک طرف طالبانائزیشن کو بڑھاوا دینا، اور پھر ایک وقت میں امریکہ کو افغانستان کے خلاف اڈے دینے جیسی دوغلی پالیسیوں پر چلنا تھا۔ ہم نے اس طرح اپنے ملک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ اب کی بار ہم اگر ایک ایک قدم پھونک کر نہ چلے، اور ضیاء الحق کی طرح محدود سوچتے ہوئے پلاننگ کی، اور پھر کوئی غلطی کردی تو پاکستان کیا، طالبان اس پورے خطے کو تباہ کر سکتے ہیں۔ فیصلہ ساز ایوانوں کو عوام کا 'نو مور' پیغام ضرور پہنچنا چاہیئے اور اس کا واحد ذریعہ پارلیمنٹ ہے۔ اپوزیشن کو سنجیدگی سے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہیئے اور افغان پالیسی پر وزیراعظم پاکستان کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔ ہم پاکستان کو پھر سے جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ ستر ہزار قربانیاں طالبان کو پیش کرنے کے لیے نہیں۔ امن کے لئیے دی گئی تھیں۔