مگر اس ساری صورتحال میں پاکستان اور افغانستان میں ایک ابھرتے ہوئے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دے رہا اور وہ مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے مابین مشترکہ دریاؤں پر کسی بھی معاہدے کا نا ہونا ہے۔ جس کے متعلق کچھ ماہرین یہ تک کہتے ہیں کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی اور پاکستان اور افغانستان نے دریائے کابل اور باقی مشترکہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر کوئی معاہدہ نا کیا تو ہوسکتا ہے تو شاید دونوں ممالک میں اس مسئلے پر جنگ ہوجائے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان نو کراس بارڈر واٹر چینل پائے جاتے ہیں جن میں دریائے کابل، دریائے کرم،دریائے گومل، الوہاب سٹریم،دریائے پشنی بورا،دریایے نولہ،کندائی اور دریائے کنڑ شامل ہیں۔ ان میں دریائے کابل کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہےجو کہ تقریباً 7 ملین آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے اور کابل کی اسی فیصد آبپاشی کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور اپنی پانی کی ضروریات کو لے کر مکمل طور پہ دریائے کابل پر انحصار کرتا ہے۔
پشاور ، چارسدہ اور نوشہرہ کی بالترتیب 80٪، 85٪، 47.5٪ آبپاشی کی ضروریات دریائے کابل سے پوری ہوتی ہے۔اسکے علاوہ پاکستان نے دریائے کابل پر چار چھوٹے ڈیم اور ایک بڑا ڈیم بھی بنا رکھا ہے جو کہ ہماری انرجی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ کے پی کے کے دو بڑے ڈیموں میں سے ایک وارسک ڈیم دریائے کابل پر ہی بنا ہوا ہے جو کہ 240 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور پشاور ویلی کے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان (دونوں) شدید پانی کے بحران کا شکار ممالک گردانے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کو water stressed country بولا جانے لگا ہے۔اس صورتحال کے دوران کابل میں اشرف غنی کی حکومت آنے کے بعد افغانستان میں پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کو حل کرنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں تو کابل حکومت نے عالمی بینک اور بھارتی حکومت کی امداد سے دریائے کابل اور اسکے معاون دریاؤں پر 12 منصوبوں کا اعلان کیا۔ اسی تناظر میں حال ہی میں اسی سال کے فروری کے مہینے میں کابل حکومت اور بھارتی حکومت کے درمیان ایک مواصلاتی اجلاس ہواجس میں افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی موجودگی میں دونوں ممالک کے درمیان ایک ایم او یو پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق بھارت افغانستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 80 ملین ڈالر امداد دے گا۔ جس میں سب سے بڑا منصوبہ دریائے کابل پر شاہ توت ڈیم کی تعمیر ہے جس کی مکمل لاگت کا تخمینہ 236 ملین ڈالر ہے۔یہ ڈیم تقریباً چار ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا۔
اگر افغانستان یہ ڈیم تعمیر کرتا ہے تو پاکستان کی طرف دریائے کابل کے بہاؤ میں 16-17 فیصد کمی آئے گی جبکہ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کابل حکومت کے اعلان کردہ بارہ منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان میں قائم وارسک ڈیم کے سوکھ جانے کا خطرہ ہے جس سے پشاور شہر شدید پانی کے بحران کا شکار ہوسکتا ہے جو کہ بہت سے معاشی و سماجی مسائل پیدا کرے گا۔وارسک ڈیم سے سیراب ہونے والے رقبے پر بڑی تعداد میں فروٹ اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں جس پر مقامی آبادی کا روزگار منحصر ہے۔اگر یہ علاقے پانی کے بحران کا شکار ہوتے ہیں تو پاکستان کے لیے بہت سارے معاشی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کو لے کر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان جلد ہی پانی کی تقسیم کے کسی معاہدے پر متفق نہیں ہوتے تو عین ممکن ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر آجائیں۔
پاکستان کو اپنے مشرقی محاذ پر پہلے ہی بھارت جیسے ہمسائے کے ساتھ پانی کے مسئلے کو لے کر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ایسے میں مغربی سائڈ میں پانی کا بڑھتا ہوا بحران پاکستان کسی بھی طور برداشت نہیں کرسکتا۔ اب ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس مسئلے کے حل کو لے کر کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسی ضمن میں پہلی کوشش 2003 میں کی جاتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے نو ممبران پر مشتمل ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے تاکہ افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر سفارشات تیار کی جاسکیں مگر افغانستان کی جانب سے ضروری ڈیٹا فراہم نا کیے جانے پر یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔اس کے بعد 2006 میں غالباً عالمی بینک دونوں ممالک میں مزاکرات کروانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ بھی ناکام ہوجاتی ہیں اسکے بعد 2009 میں اسلام آباد میں (RECCA) کے اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کی جانب سے انرجی کے شعبے سمیت مختلف مسائل کو حل کرنے پر اتفاق کیا جاتا ہے مگر یہ معاملہ بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا۔
اس صورتحال میں عالمی قوانین کے مطابق سب سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہونا ضروری ہے تاکہ دونوں جانب کوئی بھی ایسا انفراسٹرکچر تعمیر نا کیا جاسکے جس سے کسی دوسرے علاقے کی معیشت کو نقصان پہنچے۔ جبکہ عالمی قانون کے مطابق ہی پاکستان کو upper riperian state اور lower riparian state دونوں سٹیٹس حاصل ہیں کیونکہ پاکستان کی جانب سے بہنے والا دریائے چترال ( جو کہ افغانستان میں دریائے کنڑ کہلاتا ہے) افغانستان میں پہنچ کر دریائے کابل میں گر جاتا ہے۔ اور دریائے کابل کے ٹوٹل بہاؤ 21 بلین کیوبک میٹر پانی کے بہاؤ میں 15 بلین کیوبک میٹر پانی کا حصہ ڈالتا ہے جس کا مطلب ہے کہ دریائے کابل کے بہاؤ میں پاکستان کا حصہ 71٪ ہے۔ اس طرح افغانستان کو middle riperian state کا درجہ حاصل ہے جو کہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ایسا کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دے سکتی جس سے پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ میں بدلاؤ آئے اور پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا درپیش ہو۔
اب بھارت دونوں ممالک میں پانی کی تقیسم کا معاہدہ نا ہونے کو اپنے لیے موقع تصور کرتے ہوئے کابل حکومت کیساتھ مل کر پاکستان کو اپنی مغربی سائڈ سے بھی پانی کے بحران کا شکار کرنے کے در پہ ہے تاکہ پاکستان ایک نا ختم ہونے والے بحران کا شکار ہوجائے۔ مگر ابھی افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال اور طالبان کی جانب سے افغانستان کے بیشتر حصوں پر قبضہ کرلینے کے بعد صورتحال نے ایک ڈرامائی رخ اختیار کرلیا ہے۔ جس کے مطابق حال ہی میں بھارت کا کردار محدود ہوتا نظر آرہا ہے اور اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ایک مخلوط حکومت کے قیام کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر ایک بار پھر سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر کسی معاہدے کی امید نظر آرہی ہے مگر قابل افسوس مقام یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کی جانب سے طالبان یا افغان سیاست دانوں اور ٹی ٹی پی سے متعلق تو سوال کیے جاتے ہیں مگر اب تک کسی کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان ابھرتے ہوئے اس پانی کے مسئلے پر کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ ہمیں چاہیے کہ جہاں افغان سٹیک ہولڈرز سے باقی مسائل پر سوال کیے جاتے ہیں ویسے ہی پانی کے مسئلے پر بھی ان سے سوال کیے جائیں تاکہ انکی رائے معلوم کی جاسکے کہ اگر کل کو افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل پاتی ہے جس میں طالبان بھی اہم رول رکھتے ہوں تو اس ضمن میں ان سے اس مسئلے پر سوال کیا جانا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ پانی کے مسئلے کے ہوتے ہوئے اگر افغانستان کیساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا جاتا تو یہ بہت سے سماجی،معاشی اور سیاسی مسائل کا شاخسانہ بن سکتا ہے۔