یقیناً حالیہ چند عشروں سے وطنِ عزیز میں شدید معاشی بحران بھی اِس کی چند وجوہات میں سے ایک ہے۔ لیکن اہلِ علم ودانش اِس وضاحت سے اتفاق نہیں کرتے اور مقتدر حلقوں کو براہِ راست اِس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور اِن کے خیال میں شاید ”جدید تعلیم“ اِن کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ کیونکہ شاید اِس سے ہی ہماری اشرافیہ کی طویل المدتی مقاصد پورے ہوتے ہیں۔
اہلِ علم ودانش کے نزدیک چند مخفی قوتیں دراصل نچلی سطح پر یعنی گاؤں، تحصیل اور ڈسٹرکٹ سطح پر اپنے علاقوں میں بنیادی تعلیمی ڈھانچے اور تدریسی سرگرمیوں کی داغ بیل ڈالنے میں محض اپنے ذاتی سیاسی اور معاشی مقاصد کی بدولت غیر سنجیدہ اور غیر متحرک رہے ہیں۔ یقیناً تعلیم ہی انسان کو سیاسی، سماجی اور معاشی شعور عطا کرتی ہے۔ یقیناً سیاسی شعور سے ہی عوام اپنے لئے ایک محب وطن اور ذمہ دار قیادت کا انتخاب کرتے ہیں لیکن شاید یہ سیاسی شعورہی ہماری سیاسی اشرافیہ کے مقاصد میں حائل ہے۔
یقیناً قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے سول سوسائٹی، جمہوری قوتوں اور سیاسی جماعتوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اِن تمام عنصر میں سب سے اہم عنصر نصابِ تعلیم ہے۔ تمام سطحوں پر جدید نصابِ تعلیم، جمہوری روایات اور قدروں کے فروغ کے لئے بھی نہایت اہم اور کلیدی کردار اد ا کرتا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو شاید یہ بات غلط نہیں ہوگی کہ نصابِ تعلیم کو قومی وملی یکجہتی، مذہبی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ایک ریڑھ کی ہڈی کا مقام حاصل ہے۔
دورِ حاضر کے شدید سیاسی اور معاشی بحرانوں کے دیکھتے ہوئے شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے نصابِ تعلیم پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔ آج وطنِ عزیز پاکستان کو انتہا پسندی، دہشت گردی اور شدید اندرونی بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان تمام چیلنجز جو بیرونی خطرات سے زیادہ شدید ہیں اِن کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے نصابِ تعلیم کو دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ جس سے خصوصاً جذبہ حب الوطنی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی تفرق کا خاتمہ بھی ہوسکے۔
یقیناً ہمارا نصابِ تعلیم نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور قائدِاعظمؒ محمد علی جناح کے ارشادات اور فرمودات کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ نیز ہمارے نصاب میں قومی زبان کے علاوہ علاقائی زبان اور دیگر ثقافتوں کی ترقی اور ترویج کے لئے بھی عملی اقدامات ہونے چاہیں۔ یقیناً آج ضروت اِس امر کی ہے کہ ہمارے نصاب میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں کی ملک وقوم کے لئے خدمات کو بھی اُجاگر کیا جائے۔ نیز ہر قیمت پر ”پاکستانیت“ کے جذبے کو بلا کسی تفریق، رنگ، نسل و مذہب کے اجاگر کیا جائے۔ نیز قیام پاکستان سے استحکامِ پاکستان تک خواتین اور خصوصاً اقلیتوں کے کردار کو بھی اُجاگر کیا جائے۔ یقیناً تحریکِ پاکستان سے استحکام ِ پاکستان تک تمام شعبوں میں اقلیتوں نے موثر کردار ادا کیا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ایک عام پاکستانی دفاعِ وطن سے استحکام پاکستان تک اقلیتوں کے کردار سے ناواقف ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام ممتاز اقلیتوں رہنماؤں جنہوں نے عدالتِ عظمیٰ، افواجِ پاکستان، بیوروکریسی، فلم، کھیل اور متعدد دیگر شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اِن کی خدمات کا اعتراف بھی نصاب میں ہر سطح پر ہونا چاہیے۔
لہٰذا آج وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ازسرنو اپنے نصابِ تعلیم کے مقاصد کا جائزہ لیں۔ یقیناً ہمارے مقاصدِ تعلیم، ہماری معاشرتی اقدار اور مشرقی روایات سے ہم آہنگ ہونی چاہیں۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ بحیثیت ایک قوم ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک عالمگیر شہری (Global Citizen) بھی ہیں اور ہمارا یہ کردار عالمی برداری میں انتہائی اہم ہے۔ یقیناً اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تمام عالمی فارمز پر ہمارا کردار انتہائی اہم ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت قوم ہم نے یہ کردار بخوبی نبھایا ہے۔
آج بحیثیت قوم ہم اِس بات کو سمجھیں کہ ہمارا ازلی دشمن ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتا ہے لیکن دراصل یہ اجتماعیت (pluralism) ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان کے چاروں صوبوں کی ثقافت، لباس، بودوباش، طور طریقے یقیناً آپس میں مختلف ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دل ایک ساتھ ایک دوسرے لئے دھڑکتے ہیں۔ یاد رہے 14 اگست 1947ء میں اِنہی مسلم اکثریتی علاقوں نے ایک خوبصورت گلدستہ ” پاکستان“ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یقیناً ہم نے آزادی کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ آج یہ مختلف رنگوں کا قیمتی گلدستہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
آئیں آج مل کر اِس عہد کی تجدید کریں کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ آئیں ہم سب اِس بات کا عہد کریں کہ ہم سب آپس کے اختلافات کو باہمی افہام وتفہیم سے حل کریں گے اور پاکستان کی سا لمیت اور خود مختاری پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔