'کرکٹ میچ' اور خان کے سیاسی عروج کی 'فنڈنگ'

02:35 PM, 30 Jul, 2022

نیا دور
اگرچہ پاکستانی قانون میں سیاسی مقاصد کے لئے بیرونی امداد لینا ممنوع ہے، لیکن دستاویزات کے مطابق آکسفورڈ شائر اور عمران خان کی سیاسی جماعت کے خزانوں کے درمیان بذریعہ متحدہ عرب امارات ایک منی ٹریل موجود رہی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے فنانشل ٹائمز کے مطابق اس منی ٹریل کا آغاز ووٹن، آکسفورڈ شائر میں منعقدہ ایک کرکٹ ٹورنامنٹ سے ہوتا ہے جس میں کرکٹ سپر سٹار عمران خان اور بہت سے بینکرز، وکلا اور انویسٹرز کو غیر رسمی ملاقات کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔

تقریب کے میزبان پاکستانی ٹائیکون اور ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب وہ اپنی کامیابیوں کی بلندیوں پر موجود ہیں۔

تقریب میں شرکت کے لئے ہر مہمان نے دو سے ڈھائی ہزار پائونڈ ادا کرنے ہیں اور جمع شدہ رقم ایک 'نامعلوم' انسان دوست مقصد کے لئے استعمال ہونی ہے۔

برطانیہ میں گرمیوں کے دوران ایسی فنڈنگ غیر معمولی نہیں، لیکن جو غیر معمولی بات ہے وہ یہ کہ رقم بالاخر ایک سیاسی جماعت کو جانی ہے جس کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ اس رقم کی آخری منزل خان صاحب کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا بینک اکاوئنٹ ہے۔

جلد ہی ووٹن کرکٹ کے لئے اداروں اور افراد کی جانب سے رقم کی ترسیل کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس میں دو ملین پائونڈز کی خطیر رقم بھی شامل ہے جو کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ایک وزیر اور ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن کی جانب سے دی گئی۔

اگرچہ پاکستانی قانون غیر ملکی افراد یا اداروں کو ملکی سیاسی جماعتوں کو کسی بھی نوعیت کی رقوم فراہم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ابراج کی ای میلز اور اندرونی دستاویزات کے مطابق غیر ملکی افراد اور اداروں سمیت پاکستانیوں نے وونٹون کرکٹ کو کئی ملین ڈالر ارسال کئے جو بالاخر پاکستان میں تحریک انصاف تک پہنچائے گئے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ مذکورہ جماعت کو ملنے والی فنڈنگ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کئی سالوں پر محیط تحقیقات کا محور ہے۔ یہ تحقیقات اس حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اپریل میں حکومت سے بے دخل کئے جانے والے عمران خان دوبارہ طاقت میں آنے کے لئے کوشاں ہیں۔

2013ء میں عمران خان کے عروج کے ساتھ ساتھ عارف نقوی کی معاشی ترقیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جولائی 2018ء میں بالاخر عمران خان نے ملک کی زمامِ کار سنبھال لی۔

رواں برس جنوری میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تحریک انصاف نے ناصرف غیر ملکی افراد اور اداروں سے رقوم حاصل کیں بلکہ اس فنڈنگ سمیت کئی بینک اکائونٹس کو کمیشن سے چھپایا۔ رپورٹ میں وونٹن کرکٹ کا تذکرہ تو ہے لیکن نقوی کا بطور مالک تذکرہ نہیں۔

اب صورتحال یوں ہے کہ عمران خان اگلے برس اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کو تیار ہیں لہذا یہ بات بھی طے ہے کہ مذکورہ فنڈنگ اور اس کو کمیشن سے چھپائے جانے کا معاملہ پاکستانی سیاست پر چھایا رہے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ یہ رپورٹ ہو چکا ہے کہ نقوی نے عمران خان کی جماعت کے لئے فنڈنگ دی لیکن رقم کا اصل ذریعہ آج تک سامنے نہ آ سکا۔ 14 مارچ 2013ء میں وونٹون کرکٹ کے اکائونٹ میں ابراج انویسمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ کی جانب سے 3۔1 ملین ڈالر کی رقم بھیجی گئی اور اسی دن اتنی ہی رقم اس اکائونٹ سے پاکستان میں تحریک انصاف کے ایک اکائونٹ میں وصول کی گئی۔

اسی بینک اسٹیٹمنٹ اور سوئفٹ ٹرانسفر کی تفصیلات کے مطابق اپریل 2013ء میں شیخ نہیان بن المبارک النہیان کی جانب سے وونٹون کرکٹ کے اکائونٹ میں 2 ملین ڈالر کی خطیر رقم بھیجی گئی۔ شیخ النہیان ایک حکومتی وزیر، ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن اور پاکستانی بینک الفلاح کے چیئرمین ہیں۔

تب نقوی نے ایک کولیگ سے تحریک انصاف کو 2۔1 ملین ڈالر دینے کے حوالے سے ای میلز کا تبادلہ کیا۔ وونٹون کرکٹ کے اکائونٹ میں 2 ملین ڈالر بھیجے جانے کے چھ روز بعد نقوی نے اس میں سے 2۔1 ملین ڈالر کی رقم ریکارڈ کے مطابق دو حصوں میں پاکستان بھیجی۔

رقوم کے معاملے کو دیکھنے والے ابراج کے سینئر ایگزیکٹو رفیق لاکھانی نے عارف نقوی کو ایک ای میل بھیجی جس میں انہوں نے تذکرہ کیا کہ یہ رقوم تحریک انصاف کو دی جانی تھیں۔

'پیسہ ادھِر سے ادُھر'

عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ 2012ء میں وونٹن پلیس گئے تھے اور وہاں ایک "فنڈ ریزنگ ایونٹ میں شرکت کی تھی جہاں تحریک انصاف کے بہت سے سپورٹر موجود تھے۔"

دیکھا جائے تو یہ وہ وقت تھا جب مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات کے لئے خان کے لئے فنڈنگ نہایت اہم تھی اور نقوی نے دیگر پاکستانی بزنس مین کے ساتھ مل کر ان کی مہم کے لئے رقوم ممکن بنائیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑی رقم النہیان کی جانب سے بھیجی جانے والی 2 ملین ڈالر کی رقم تھی۔

جب ابراج کے ایگزیکٹو لاکھانی نے کہا کہ شیخ کی رقم موصول ہو گئی ہے، تو نقوی نے انہیں کہا کہ وہ اس میں سے 2۔1 ملین کی رقم تحریک انصاف کو بھیج دیں۔ شیخ کی رقم ووٹون کرکٹ کے اکائونٹ میں موصول ہو جانے کے بعد ایک اور ای میل میں نقوی نے لکھا: "کسی کو یہ نہ بتایا جائے کہ فنڈز کہاں سے آ رہے ہیں یا یہ رقوم کون دے رہا ہے۔" جس کا جواب لاکھانی نے "ضرور، سرَ" کہہ کر دیا اور پھر یہ لکھا کہ وہ مذکورہ رقم پاکستان میں تحریک انصاف کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کی جائے گی۔

پھر رقم نقوی کے ذاتی اکائونٹ کے ذریعے سے تحریک انصاف کو ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے سوچ بچار کے بعد لاکھانی نے تجویز دی کہ رقم دو حصوں میں کراچی کے بزنس مین طارق شفیع اور لاہور میں انصاف ٹرسٹ کے اکائونٹس میں بھیجی جائے۔ اگرچہ انصاف ٹرسٹ کی اونرشپ مبہم ہے۔ ای میلز کے مطابق رقوم ب لاخر تحریک انصاف کو ہی جانی تھیں۔ "کام بگاڑ مت دینا رفیق،" ایک اور ای میل میں نقوی گویا ہوئے۔

6 مئی 2013ء کو ووٹن کرکٹ نے شفیع اور انصاف ٹرسٹ کو کل 2۔1 ملین ڈالر کی رقم بھیجی اور لاکھانی نے نقوی کو ایک ای میل میں لکھا کہ یہ ٹرانسفرز تحریک انصاف کے لئے تھے۔ خان نے تصدیق کی کہ شفیع نے پی ٹی آئی کو رقم عطیہ کی۔ اس حوالے سے پوچھے جانے پر عمران خان نے کہا کہ یہ سوال طارق شفیع سے کیا جانا بنتا ہے کہ انہیں رقم کہاں سے ملی۔ النہیان اور شفیع نے اب تک اس حوالے سے اپنا جواب نہیں دیا ہے۔

'فنڈنگ بہرحال ممنوعہ تھی'

الیکشن کمیشن نے عمران خان کی جماعت کی فنڈنگ کی تحقیقات اس وقت شروع کیں جب جماعت کے ایک بانی اکبر ایس بابر نے اس حوالے سے دسمبر 2014ء میں ایک شکایت درج کی۔ اگرچہ دنیا بھر سے ہزاروں پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کے لئے رقوم بھیجیں، بابر کا اصرار ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ بہرحال ہوئی ہے۔

اپنے تحریری جواب میں خان کا کہنا ہے کہ نہ تو انہیں اور نہ ہی ان کی جماعت کے علم میں تھا کہ ابراج نے وونٹون کرکٹ کے ذریعے سے 3۔1 ملین ڈالر فراہم کئے۔ سربراہ تحریک انصاف نے اس بات سے بھی لاعلمی ظاہر کی کہ تحریک انصاف کو ملنے والی کسی بھی رقوم کا اجراء شیخ النہیان کی جانب سے کیا گیا۔

خان نے اپنے جواب میں لکھا " عارف نقوی نے ایک بیان دیا جو الیکشن کمیشن میں بھی جمع کرایا گیا، اور کسی نے اس کی تردید نہیں کی، کہ رقوم ایک کرکٹ میچ کے دوران عطیہ کی گئیں اور یہ کہ ان کی جانب سے وصول کی گئی رقم ان کی کمپنی ووٹون کرکٹ کے ذریعے سے بھیجی گئی تھی۔"

خان نے مزید کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کی تحقیقات کے حوالے سے اس کے جواب کے منتظر ہیں۔ "اس سے قبل پی ٹی آئی کو کسی بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا مناسب نہیں ہوگا۔"

جنوری میں جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ وونٹون کرکٹ نے پی ٹی آئی کو 21۔2 ملین ڈالر ٹرانسفر کئے لیکن رقم کا اصل ذریعہ نہیں بتایا۔ نقوی نے اعتراف کیا کہ وہی وونٹون کرکٹ کے مالک ہیں لیکن وہ کسی غلط کام کے کئے جانے سے انکاری ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اپنے جواب میں ان کا کہنا تھا: "میں نے کسی غیر پاکستانی اوریجن کے کسی فرد، پبلک یا پرائیوٹ کمپنی یا کسی ممنوعہ ذریعے سے کوئی رقم وصول نہیں کی۔"

لیکن ووٹن کرکٹ کی بینک اسٹیٹمنٹ کچھ اور کہانی بیان کر رہی ہے۔ اسٹیٹمنٹ کے مطابق نقوی نے تحریک انصاف کو 2013ء میں 12۔2 ملین ڈالر کی رقم 3 انسٹالمنٹس میں براہ راست ٹرانسفر کیں۔ ان میں سب سے بڑی رقم 3۔1 ملین ڈالر کی تھی جو کمپنی کے دستاویزات کے مطابق ابراج نے ٹرانسفر تو ووٹن کرکٹ کو کی لیکن اسے 'چارج' کے-الیکٹرک کی ہولڈنگ کمپنی کو کیا۔

اس سکینڈل کا اثر بجا طور پر خان کی نئے الیکشن کی مہم پر پڑ سکتا ہے۔ جولائی میں جب تحریک انصاف نے پنجاب کے ضمنی انتخابات کا اہم معرکہ اپنے نام کیا تو خان نے قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ بھی دہرایا۔ ساتھ ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سربراہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو 'مکمل طور پر جانبدار' قرار دیا۔

اس کے ساتھ ہی وزیراعظم شہباز شریف نے کمیشن پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنانے پر زور دیا اور کہا کہ سیاسی کھینچہ تانی سے پیدا ہونے والی تاخیر نے خان کو "ریاستی اداروں پر مسلسل اور بے شرمی کے ساتھ کیے جانے والے ان کے حملوں کے باجود ایک فِری پاس دے دیا ہے۔"

لیکن واشنگٹن کے رسرچ گروپ اٹلانٹک کائونسل کے پاکستان کے شعبے کے ڈائریکٹر عزیر یونس کے مطابق خان کے 'مخلص' حامیوں پر فیصلے کے نیتجے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ بلکہ ممکن ہے کہ سربراہ پی ٹی آئی اس رپورٹ کو بھی 'بیرونی طاقتوں کی جانب سے اپنی سازش کے لیے عالمی میڈیا کے استعمال' کے بیانیے کی زد میں لے آئیں۔

اکبر ایس بابر کے نزدیک تنازعہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ خان کی طرف سے سیاست میں رکھے گئے معیارات بے معنیٰ ہو رہے ہیں۔

"ان کے پاس بہت بڑا موقع موجود تھا جو انہوں نے ضائع کر دیا۔ ہمارا مقصد اصلاحات اور ان مقاصد کو سیاست میں متعارف کرانا تھا جن کی ہم نے اعلانیہ تشہیر کی تھی۔ لیکن سیاسی سمجھ بوجھ کے حوالے سے ان (خان) کا اخلاقی کمپاس اپنے راستے سے مکمل طور پر بھٹک گیا ہے۔"

(برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز سے ماخوذ)
مزیدخبریں