پروسیڈنگ آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی سات سالہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چین میں سوروں کے اندر ایک نیا ایچ ون این ون (H1N1) انفلوانزا وائرس پایا گیا ہے جسے جی 4 ای اے ایچ 1 این 1 (G4 EA H1N1) کا نام دیا گیا ہے۔
چین اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے محققین کا کہنا ہے کہ وائرس کے اندر وبا کی شکل اختیار کرنے کی تمام خصوصیات موجود ہیں اور یہ بھی انسانی خلیوں کے اندر تیزی سے بڑھتا اور پھیلتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی 2009 میں پھیلنے والے سوائن فلو سے بہت زیادہ مشابہت ہے۔
یاد رہے کہ 2009 میں دنیا کے کئی ممالک میں وبا کی شکل اختیار کرنے والے سوائن فلو سے صرف امریکہ میں ایک سال کے دوران ساڑھے 12 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نیا وائرس 2016 میں سامنے آیا اور اِس وقت فلو یعنی زکام کے لیے دستیاب ویکسینز اس پر اثر نہیں کرتی ہیں۔ اس مطالعے کے دوران مشاہدے میں شامل 10 فیصد کسان اس وائرس سے متاثر ہوئے لیکن اس بات کے کوئی شواہد ابھی نہیں ملے ہیں کہ یہ انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے یا مستقبل میں ایسا کوئی امکان موجود ہے۔
یونیورسٹی آف اوٹاگو میں سینئر لیکچرر اور وائرالوجسٹ ڈاکٹر جیما جیوگیگن کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ یہ وائرس فوری طور پر انسانوں کے لیے کسی قسم کا خطرہ ہے۔
ڈاکٹر جیما کے مطابق ایسا کہنا ابھی قبل ازوقت ہے کہ سوروں میں پایا جانے والا نیا وائرس اگلی وبا کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
محققین نے لکھا ہے کہ سور وبائی انفلوانزا وائرسز کے درمیانی میزبان تصور کیے جاتے ہیں اور ان وائرس کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ کسی نئی وبا سے پہلے ہی وارننگ جاری کی جا سکے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں چین سے پھیلنے والا کرونا وائرس وبا کی صورت اختیار کرنے کے بعد اب تک دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کو متاثر کر چکا ہے جب کہ پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی لیے کرونا، انفلوانزا اور ان سے ملتے جلتے وائرسز اس وقت دنیا بھر میں محققین کی توجہ کا مرکز ہیں۔