عمران خان نے کہا کہ ان لوگوں نے قربانیاں دے کر اور ہماری سیکیورٹی فورسز نے مقابلہ کر کے ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا کیونکہ بھارت نے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے یہ بڑا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ دہشت گرد بہت زیادہ اسلحہ لے کر آئے تھے، ان کا ایک مقصد تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں جا کر انہیں یرغمال بناتے اور جو ایک دفعہ ممبئی میں بہت بڑی دہشت گردی ہوئی تھی، بالکل اسی طرح کا پلان کہ اسٹاک ایکسچینج میں بھی یہ وہی کرتے اور اسی طرح بے قصور لوگوں کو قتل کرتے اور عدم استحکام کی فضا بناتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی شک نہیں یہ منصوبہ بھارت سے ہوا ہے اور پچھے دو مہینے سے کابینہ اور وزرا کو بتایا ہوا ہے کہ ہماری جتنی بھی ایجنسیز ہیں وہ ہائی الرٹ پر تھیں، ہماری ایجنسیوں نے کم از کم دہشت گردی کی چار بڑی کوششوں کو ناکام بنایا جن میں سے دو اسلام آباد کے ارد گرد ہونا تھیں۔ اس کی پوری تیاری ہم نے کر کے رکھی ہوئی تھی لیکن میں ان شہیدوں کے ساتھ ساتھ بھرپور تیاری رکھنے پر خفیہ ایجنسیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے بجٹ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل بجٹ تھا، ہم نے پانچ ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے تھے جو ردوبدل کے بعد 4ہزار 900 ارب پر آ گیا، یہ ہمارا ایف بی آر کا ٹارگٹ تھا۔ 17 فیصد کلیکشن ہو رہی تھی جو چار پانچ سال میں سب سے زیادہ کلیکشن تھی۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ آیا تو ساری دنیا کی معیشتوں پر اسی طرح کے اثرات مرتب ہوئے تو ہمیں براہ راست نقصان یہ ہوا کہ نظرثانی شدہ ہدف 4 ہزار 900 ارب سے 3 ہزار 900 ارب پر آ گیا یعنی ایک ہزار ارب روپے کی کمی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی بھی کرونا کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور میں اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ ہم نے وہ لاک ڈاؤن نہیں کیا جس کا ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں سندھ سے مثالیں آئیں کہ سندھ میں کتنا زبردست لاک ڈاؤن ہو گیا، آپ بھی کریں، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خودمختار ہیں اور اپنے فیصلے کر سکتے ہیں لیکن اگر میری بات سنی جاتی تو میں کبھی وہ لاک ڈاؤن نہ کرتا جو میں نے کیا۔ میں پھر بھی کوشش کرتا رہتا کہ ہماری کنسٹرکشن چلتی رہتی، ہماری چھوٹی دکانیں، چھابڑی والے چلتے رہتے لیکن کیونکہ ہم یورپ کو دیکھ رہے تھے تو یہاں بھی یورپ کو دیکھ کر لاک ڈاؤن کیا گیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ شکر ہے کہ ہم نے دباؤ کو برداشت کیا اور ایس او پیز کے ساتھ دکانیں کاروبار وغیرہ کھولتے رہے اور اب دنیا مان گئی ہے کہ کرونا کا مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ اسمارٹ لاک ڈاؤن ہے۔ ہم پہلے تھے جنہوں نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا، ہم کنفیوژ نہیں تھے بلکہ کنفیوژ وہ تھے جو کبھی پاکستان کے غریب علاقوں میں نہیں گئے، جو لوگ کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کرو وہ کبھی غریبوں کی کچی بستیوں میں نہیں گئے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم بچے کیونکہ ایک تو ہم نے جلدی کھولا اور دوسرا ثانیہ نشتر اور ان کی ٹیم کو اس لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اتنے تھوڑے وقت میں اتنا زیادہ پیسہ جس شفاف طریقے سے تقسیم کیا، اس کی مثال پاکستان سمیت انفارمل معیشت والے پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے پاس اب ایک اور چیلنج آ گیا ہے کہ پہلے سے بری صورتحال سے دوچار معیشت جو بہتری کی جانب گامزن تھی، اس کے لیے ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر ہمیں اس صورتحال کو بہتر بنانا ہے کہ وہ پیشہ جو ہمیں تعلیم، صحت، صاف پانی اور غریب کسانوں اور ہستپالوں پر لگانا چاہیے، وہ خسارے سے دوچار حکومتی اداروں پر لگ رہا ہے جس میں توانائی کا شعبہ اس ملک کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے کا سارا قرضہ ہمیں پہلے حکومتوں سے ملا ہے، اس شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور ہم ان بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔
وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دو باتیں موجودہ صورتحال کے تناظر میں اہم ہیں، ایک یہ کہ کرسی آنے جانے والی چیز ہے، بس نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دوسری یہ کہ اگر مائنس ہو بھی گیا تو پیچھے آنے والے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسمبلی میں وزیر اعظم کے خطاب سے قبل ہونے والی ہنگامہ آرائی کے سبب اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خطاب کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اپوزیشن بینچیز مکمل طور پر خالی نظر آئے۔