پاکستان میں بھی مریضوں کی یومیہ بڑھتی تعداد کے پیش نظر صورتحال تسلی بخش نہیں ہے جبکہ دنیا کے کئی ترقی پذیر اور غریب ممالک سمیت تنازعات سے دوچار خطوں کے عوام وائرس کا نشانہ بن رہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ یہ اعداد و شمار دنیا بھر میں شدید انفلوئنزا سے سالانہ متاثر ہونے والے افراد کا دوگنا ہیں۔ کووڈ۔19 کے باعث مصدقہ مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرفہرست پانچ شدید متاثرہ ممالک میں امریکہ ،برازیل ،روس ،بھارت اور برطانیہ شامل ہیں۔ عالمی سطح پر مصدقہ مریضوں کی پچیس فیصد تعداد کا تعلق شمالی امریکہ ،لاطینی امریکہ اور یورپ سے ہے ،ایشیا میں یہ تعداد گیارہ فیصد جبکہ مشرق وسطیٰ میں مجموعی تعداد کا نو فیصد ہے۔موجودہ صورتحال میں بھارت اور برازیل دو ایسے ملک ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ وبا کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں یومیہ مریضوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ وسائل بھی انتہائی محدود ہیں۔اسی باعث ایشیا میں بھارت کو نوول کورونا وائرس کا ایک گڑھ قرار دیا جا رہا ہے ۔
یہ بات تشویشناک ہے حالیہ عرصے میں عالمی سطح پر مریضوں کی تعداد میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس کی وجوہات میں متعدد ممالک کی جانب سے لاک ڈاؤن یا دیگر پابندیوں میں نرمی ایک اہم عنصر ہے۔ چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں موثر طور پر وبا پر قابو پا لیا گیا تھا مگر اس کے باوجود چند نئے کیسز کا سامنا آنا باعث تشویش ہے۔ ان ممالک میں چین،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں دو ماہ تک کوئی ایک بھی نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا اور شہر میں معمولات زندگی تقریباً بحال ہو چکے تھے مگر گیارہ جون کے بعد ایک ہول سیل مارکیٹ سے سامنے آنے والے نئے کیسز کی تعداد اب تک تین سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ وبا کی روک تھام و کنٹرول میں چین باقی ممالک سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں ٹیسٹنگ ،ٹریسنگ اور علاج کا جامع نظام فعال ہے اور گزشتہ عرصےکے دوران مثبت پیش رفت اور حاصل شدہ کامیابیاں بھی چین کی سبقت کا مظہر ہیں۔ بیجنگ کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں تاحال یومیہ ٹیسٹنگ کی صلاحیت ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور بارہ جون سے اب تک تقریباً تیراسی لاکھ شہریوں کے ٹیسٹ بھی کر لیے گئے ہیں۔
عالمگیر وبائی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ انسانیت کا مقابلہ ایک ایسے چالاک دشمن سے ہے جو انتہائی معمولی انسانی غلطی ، کمی یا کوتاہی سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھانا جانتا ہے۔ نوول کورونا وائرس جیسے چھپے ہوئے دشمن کی سنگینی کو مختلف ممالک کے غیر سنجیدہ رویوں کے باعث بھی مزید تقویت ملی ہے۔ اکثر ممالک نے وبا کو بہت ہلکا لیا اور ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔دنیا کے اکثریتی ممالک کے پاس طبی نظام وائرس کے سامنے بے بس نظر آیا جبکہ ترقی یافتہ ممالک وبائی صورتحال کے آغاز میں چین پر الزام تراشی اور وبا کو ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرتے نظر آئے جس سے حالات مزید ابتر ہوتے گئے اور آج ایک کروڑ کی حد عبور ہو چکی ہے۔
رواں برس کے آغاز میں چین اور ڈبلیو ایچ او کی جانب سے تمام ممالک کو سنگین خطرے سے بروقت خبردار کیا گیا لیکن اس کے باوجود بدترین انتظامات دیکھنے کو ملے۔ الزام تراشی ، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا دیگر ممالک کو اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے سے وائرس کے خلاف کامیابی کا حصول ممکن نہیں ہے۔انسداد وبا کے عالمی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے ڈبلیو ایچ او نے ایک واضح فریم ورک ترتیب دیا جس کا ایک کلیدی نکتہ یہی ہے کہ جس بہتر طور پر دنیا تعاون کی بدولت آگے بڑھے گی ، اُسی قدر وائرس کے اثرات کو محدود کیا جا سکے گا۔ چین کے ماڈل کو اپناتے ہوئے متعدد ممالک نے "سوشل ڈسٹنسنگ" اور لاک ڈاون جیسے اقدامات اپنائے جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے لیکن جونہی معاشی مجبوریوں یا سماجی دباو کے تحت پابندیوں میں نرمی لائی گئی تو صورتحال تشویشناک رخ اختیار کر گئی۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران دنیا بھر میں سیاسی فیصلہ ساز ،صحت عامہ کے ماہرین ،سائنسدان اور عام عوام بھی وبا کی پہلی لہر سے لازمی طور پر یہ جان چکے ہیں کہ ویکسین کی دستیابی کی صورت میں ہی نوول کورونا وائرس سے بچاو ممکن ہے ۔لیکن جب تک ویکسین میسر نہیں آتی اُس وقت تک تو نظام زندگی کو احتیاطی تدابیر کے تحت رواں رکھنا ہی ہے، یہاں ایک جانب اگر مختلف ممالک کی قیادت کا امتحان ہے تو دوسری جانب دانشمندانہ فیصلہ سازی وقت کا تقاضا بھی ہے۔وبائی بحران کے معیشت اور سماج پر پڑنے والے دوررس اثرات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے مگر مفاد عامہ اور انسانی جانوں کے تحفظ کو فوقیت دیتے ہوئے بروقت اور مضبوط فیصلے ہی طویل المیعاد بنیاد پر فتح کے حصول کی ضمانت ہوں گے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہم نے وبا کی پہلی لہر سے کیا سیکھا ہے اور ویکسین کی عدم دستیابی تک مستقبل میں ہماری منصوبہ بندی کیا ہو گی؟