سی ایس ایس 2019 میں فارن سروس میں جگہ پانے والی رابیل کینیڈی: مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ملک کی ایک اور قابل فخر بیٹی

سی ایس ایس 2019 میں فارن سروس میں جگہ پانے والی رابیل کینیڈی: مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ملک کی ایک اور قابل فخر بیٹی
پاکستان میں سی ایس ایس کے امتحانات کو ایک لاٹری کہا جائے تو شاید بات مکمل نہ ہو لیکن غلط بھی نہیں ہوگی۔ یہاں ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ جب غریب پس منظر سے اٹھنے اور گوں نا گوں مسائل کو مات دیتے امیدوار کامیاب ہو کر ملک کے نظم و نسق چلانے والے عہدوں پر جا بیٹھتے ہیں۔ راتوں رات ان کی معاشرے میں حیثیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاہم دوسری طرف ایسی کہانیاں بھی سی ایس ایس کے ریگزار میں ملتی ہیں جہاں بڑے قابل، پڑھے لکھے اور اعلیٰ سماجی، معاشی اور تعلیمی پس منظر رکھنے والے افراد بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اکثر روحانی شخصیات سے منسوب مقامات پر لکھے جملے کہ قسمتیں بدلتی ہیں یہاں کی عملی شکل سی ایس ایس کے امتحان میں نظر آتی ہے۔

ہمیشہ کی طرح سی ایس ایس 2019 کا نتیجہ بھی کچھ ایسا ہی رہا جہاں کامیابی کی عظیم داستانیں رقم ہوئیں۔ کہیں مکنیک کا بیٹا سی ایس ایس کر گیا تو کہیں ایک ہی گھر کی پانچ ’شیر‘ بہنوں نے نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ انہی میں سے ایک کامیاب امیدوار سیالکوٹ کی رہائشی رابیل کینیڈی ہیں جو کہ پاکستان کی مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو فارن سروس کا گروپ الاٹ ہوا ہے اور ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وہ دفتر خارجہ میں پہلی مسیحی خاتون ہوں گی۔ دلچسپ طور پر رابیل کے والد کا نام جان کینیڈی ہے جو کہ سابق مقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے ملتا ہے۔ لیکن اب صرف نام ہی نہیں بلکہ جان اپنی بیٹی کے سی ایس ایس پاس کر کے محکمہ خارجہ میں تعیناتی پر کسی صدر سے کم خوش اور با اختیار نہیں محسوس کر رہے ہوں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ معاشی درجہ بندی کے آخری نمبروں میں موجود ہونا پاکستان میں کسی بھیانک خواب سے کم نہیں لیکن غریب ہونے کے ساتھ یہاں مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنا مزید ہولناک ہے۔ تاہم، رابیل کینیڈی نے اپنی دن رات کی محنت سے جو بازی پلٹی ہے وہ دیکھنے اور بیان کرنے کے لائق ہے۔

سی ایس ایس کرنے والی رابیل کینیڈی تربیت مکمل کرنے کے بعد پاکستان کی فارن سروس یا وزارت خارجہ میں خدمات انجام دیں گی۔ ان کے والد جان کینیڈی فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈرائیور کی خدمات انجام دیتے ہیں۔

بی بی سی اردو پر نے دونوں باپ بیٹی کے حوالے سے ایک ضمیمہ شائع کیا گیا ہے جس میں ان سے کی گئی بات بھی شامل ہے۔

رابیل بتاتی ہیں کہ ہم پانچ بہن بھائی ہیں، سب کے سب پڑھ رہے تھے۔ والد  ہر صورت میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے مگر ظاہر ہے کہ معاشی مسائل تھے۔ فیسیں اور دیگر اخراجات بہت زیادہ ہوتے تھے۔ رابیل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے لئے انہوں نے اپنے ہی سکول میں بحیثیت ٹیچر نوکری کے لئے درخواست دی۔ آغاز میں انہیں صرف 12 ہزار روپے ماہانہ اور اب 24 ہزار تنخواہ ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں صبح سے دوپہر دو بجے تک سکول میں فرائض ادا کرتی اور اس کے ساتھ ایک نجی کالج سے پرائیوٹ طور پر اپنی تعلیم جاری رکھی۔

ان کے والد نے ان کو سی ایس ایس کرنے کا حوصلہ دیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رابیل نے کہا کہ ان کے والد خود تو پڑھے لکھے نہیں لیکن انہوں نے مجھے انتھک محنت کرنے پر ابھارا تاکہ میں پڑھ لکھ کر افسر بنوں اور نہ صرف اپنے خاندان کا نام روشن کروں بلکہ اپنی اور اپنے خاندان کی معاشی صورتحال کو بھی بہتر بنا سکوں۔

دوپہر دو بجے تک سکول میں ٹیچنگ کرتی تھی جس کے بعد اڑھائی بجے ایم ایس سی کی کلاسوں کے لئے پہنچنا ہوتا تھا۔ شام کو پانچ سے چھ بجے تک کلاسیں ہوتی تھیں۔ عموماً شام سات بجے تک گھر پہنچتی۔ کھانا وغیرہ کھا کر والدہ، بہن بھائیوں اور پاپا کے ساتھ کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد ایم ایس سی کی تیاری کے علاوہ، سی ایس ایس کی تیاری کرتی تھی۔

بی بی سی نے رابیل کینیڈی کے والد جان کینیڈی کے ساتھ بات کرتے ہوئے لکھا کہ میں تو خود ایک ڈرائیور ہوں۔ ’میں نے صرف ایک خواب دیکھا۔ اس خواب کے پیچھے کئی سال تک اندھا دھند بھاگتا رہا۔ مگر اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میری بیٹی رابیل نے بہت محنت کی تھی۔

افسر شاہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر خاندان کا ایک بھی فرد اس تک پہنچ پائے تو پورے خاندان کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ جبکہ ایک مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والی ہونہار لڑکی نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنی کمیونٹی کے لئے بھی فائدہ مند ہوسکتی ہے۔  جس سے اسکے ساتھ کے مزید نوجوان پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل تو سنواریں گے ملک کے انتظام میں بھی نئے، تازہ اور گہرے نقطہ نظر کو شامل کرنے کا باعث بنیں گے۔ اس سے محروم طبقات کو فائدہ پہنچے گا جو ریاست اور عوام کے درمیان با اعتماد رشتے پر منتج ہوگا۔