نوے کی دہائی کے اواخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لیا۔ دیہاتی پس منظر اور طبعاً کم گو ہونے کے سبب شہرِ لاہور اور یونیورسٹی کی زندگی بڑی خیرہ کن تھی۔ ابتدائی چند دن یوں ہی گزرے جیسے آپ کسی انتہائی مصروف چوک پرکھڑے ہوں اور آپ کے چاروں طرف سے گاڑیاں زن زن کر کے گزر رہی ہوں۔ خوف اور بے یقینی میں آپ کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ یا ٹریفک رک جائے یا پھر کوئی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو پار لے جائے۔ درس گاہوں میں اساتذہ کرام یہ دوسرا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے لئے تو تمام ہی اساتذہ ایک دیومالائی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک روز ہم کلاس میں موجود تھے، لیکچر شروع ہونے کا وقت گزر گیا مگر پروفیسر صاحب تشریف نہ لائے۔ ان کا دفتر ہمارے کلاس روم کے بالکل ساتھ تھا اور ہم جانتے تھے کہ وہ وہیں موجود ہیں۔ کچھ دیر اور گزری تو باہمی کھسر پھسر کے بعد فیصلہ ہوا کہ انہیں جا کر یاد کروایا جائے۔ قرعہِ فال میرے نام نکلا۔ میں گیا اور ممیاتے ہوئے ان کے گوش گزار کیا کہ لیکچر کا وقت گزرا جا رہا ہے۔ انہوں نے چشمے کے پیچھے سے اوپر سے نیچے تک میرا جائزہ لیا اور بولے کہ چلو میں آتا ہوں۔ جب آئے تو تعلیم کے حصول کے لئے ہمارے ’ذوق و شوق‘ پرخاصی سیر حاصل روشنی ڈالی۔ چند ہفتے اور گزرے تو ایک روز پھرایسا ہی ہوا۔ اس بار پچھلے تجربے کے پیشِ نظر ہم سب چپکے پیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد وہ خود ہی آگئے۔ اس بار ہماری سستی اور وقت کا ضیاع موضوعِ سخن رہا۔ یہ تھے ہمارے ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور ان کی متلون مزاجی سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔
دھیرے دھیرے ملاقاتیں بڑھیں تو اندازہ ہوا کہ ان کا پارہ جتنی جلدی چڑھتا ہے اس سے زیادہ تیزی سے اتر بھی جاتا ہے۔ طوفان گزر جانے کے بعد اس کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مہربان ہو جاتے ہیں۔ زیادہ بڑی حقیقت یہ آشکار ہوئی کہ ان کے معیارات کڑے تھے اور وہ محض مقبولیت حاصل کرنے کے لئے سمجھوتے کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے شاگرد ہمیشہ بہتر کی جستجو کریں۔ آپ اس راہ پر ان کی جانب ایک جست بھرتے تو وہ دس قدم آپ کی جانب اٹھاتے۔ اگر کوئی کامیابی کے راستے پر آپ کی رہنمائی کرے اور آپ کی اٹھان دیکھ کر سرشار رہے تو ایسے شخص کو کیا کہا جائے؟ ایسا ہی تو ہوتا ہو گا پیرِ کامل۔
بس اس کے بعد وہ ہمارے مرشد تھے اور ہم ان کے مرید بلکہ مریدِ خاص ہونے کی سعادت بھی حاصل رہی۔ ان کی اِک نگاہِ غلط انداز پر بھی ہم اترائے اترائے پھرتے تھے اور ہر نشست سے کچھ نہ کچھ موتی سمیٹ کر اٹھتے تھے۔ انہی سے سیکھا کہ گھڑے کی مچھلی کی طرح تمام عمر گزار دینے کو زندگی نہیں کہتے۔ وہ مختلف شعبوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مہمانوں کو مدعو کرتے تھے جو ہماری علمی و فکری رہنمائی کر سکیں اور ان کی کہانیاں ہمارے جذبوں کے لئے مہمیز کا کام کریں۔ اقبال نے کہا تھا
کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
مجھ پر کِیا یہ مُرشدِ کامل نے راز فاش
کہتے ہیں ہر انسان کے اندر ایک بچہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ پے در پے کامیابیاں سمیٹنے کے سفر کے دوران مغیث صاحب کے اندر کا حساس اور نٹ کھٹ بچہ ہمیشہ زندہ رہا اور وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اس سے توقعات بڑھتی جاتی ہیں۔ ضروری نہں ہوتا کہ ان کی کامیابیوں سے اپنا حصہ کشید کرنے کے خواہش مند دوسرے لوگ بھی اتنے ہی محنتی اور بے لوث ہوں۔ کچھ لوگ ایسے موقع پر اپنے خول میں بند ہو جاتے ہیں تاکہ ان کی زندگی میں کوئی بے جا دخل اندازی نہ کر سکے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے دروازے وا کر دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کے سفر کے شریک بنیں۔ مغیث صاحب کا شمار دوسری قسم کے لوگوں میں ہوتا تھا۔
ان کے حلقہ احباب میں تین طرح کے لوگ شامل تھے۔ ایک وہ جو ان کے بچپن اور جوانی کے ساتھی تھے۔ اس دور میں ان کا تعلق اسلامی جمیعت طلبہ سے رہا تھا اور یہ دوستیاں پنجاب یونیورسٹی کی اساتذہ یونین تک ان کے ساتھ چلیں۔ بطور تعلیمی رپورٹر ایسی کئی محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ پرانے احباب کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ اپنے روزمرہ مسائل سے کچھ دیر کے لئے دور ہو جاتے تھے۔ اوائل عمری کی بے ساختگی لوٹ آتی تھی اور یہ احباب بھی ان کی خوب ناز برداریاں کرتے تھے۔ دوسری قسم وہ تھی جن کے لئے مغیث صاحب کے ساتھ جڑنا کسی منفعت کا باعث تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا کمال یہ تھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسے کچھ لوگ شاید من کے اِتنے اجلے نہیں تھے، کبھی انہیں خود سے دور نہیں کیا۔ ہمیشہ انہوں نے یہی سمجھا کہ اگر ان کی ذات سے کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو پہنچ جائے۔ تیسری قسم وہ تھی جو ان کے خاص مریدین پر مشتمل تھی۔ ان کے لئے ڈاکٹر صاحب کی ہر بات حرفِ آخر تھی۔ اسی لئے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ کہ مرشد جلال میں بھی ہو تو غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ ویسے بھی ہم میں سے کون ہے جسے خطا سے پاک ہونے کا دعویٰ ہو؟ ان کی خوبیوں اوراحسانات کے پہاڑ کے سامنے اکا دکا بشری کمزوریاں رائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔
ایک بار کسی بات پر وہ مجھ سے سخت ناراض تھے۔ میں بھی منظر سے اوجھل ہو گیا۔ سوچا کہ چلو غصہ کچھ کم ہو جائے تو پھر رابطہ کروں گا۔ اسی دوران ماہِ رمضان شروع ہو گیا۔ ایک روز ہمارے ایک مشترکہ محترم دوست کا فون آیا اور افطار کی دعوت دی۔ جب میں مقررہ وقت پر پہنچا تو بولے مغیث صاحب بھی آنے والے ہیں۔ میں بہت حیران ہوا کہ وہ تو مجھ سے ناراض ہیں؟ کہنے لگے ملاقات کا اہتمام انہی کے کہنے پر کیا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پچھلی بدمزگی پر کوئی بات نہیں ہو گی۔ جب وہ آئے اور نشست ہوئی تو وہی روایتی بذلہ سنجی اور شفقت۔ ان کے بظاہر سخت گیر سراپے کے پیچھے چھپی اس نرم مزاجی کے مظاہرے ہم نے بارہا دیکھے۔ انہوں نے کسی سے اپنے تعلقات کی ڈور میں کبھی اتنا تناؤ نہیں آنے دیا کہ ٹوٹ ہی جائے۔
ایک بارے میرے ایک جاننے والے مجھے بتائے بغیر کسی کام سے ان کے پاس جا پہنچے۔ مدعا بیان کیا اور ڈاکٹر صاحب نے ان کا مسئلہ حل کر دیا۔ مجھ سے ذکر بھی نہیں کیا۔ ان صاحب نے بہت بعد میں مجھے بتایا اور کہنے لگے کہ ڈر تھا تم سے کہتا تو تم ان سے بات کرنے سے انکار کر دیتے۔ کام کی نوعیت کچھ ایسی ہی تھی۔ میں سوچتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ مدت بعد سمجھ میں آیا کہ وہ صرف مذکورہ صاحب کی مدد نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک انجان شخص کے سامنے اپنے اور میرے تعلقات کی لاج نبھا رہے تھے۔ ہمارے کاندھوں پران کی ایسی ان گنت محبتوں اور احسانات کی گٹھڑی بوجھ نہیں اعزاز ہے کہ انہوں نے ہمیں اس قابل سمجھا۔
کچھ لوگ معترض ہوتے ہیں کہ انتظامی ذمہ داریوں کے ہنگام میں ڈاکٹر صاحب ذاتی طور پر تحقیق کا کام اتنا نہیں کر سکے جو ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے انہیں کرنا چاہئیے تھا۔ مگر ایسا کہتے ہوئے وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنے لئے جیتے تو ایک گھنا اور تناور درخت بن جاتے۔ مگر اس کی چھاؤں ان کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی اور اردگرد کا لق و دق صحرا ویسے کا ویسا ہی رہتا۔ انہوں نے زمین کا بنجر پن پہچانا اور باغبان بن گئے۔ کئی نسلوں تک فصل کی آبیاری کی۔ آج ان کے لگائے ہوئے پودے پوری دنیا میں پھل پھول رہے ہیں۔ یہی ان کا خواب تھا۔ احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
ویسے بھی سچا مرشد صرف اپنے لئے کہاں جیتا ہے؟ وہ تو پارس بن جاتا ہے جسے چھونے والے پتھر بھی سونا ہو جاتے ہیں۔ ان کی وفات پرایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ گفتگو کے دوران اس نے کہا ’’یہ ڈاکٹر مغیث کا ہی کمال ہے کہ صادق آباد کے ایک گاؤں سے آنے والے اویس سلیم کو امریکہ کی لامار یونیورسٹی کا ڈاکٹر اویس سلیم بنا ڈالا‘‘۔ میرے دوست نے سولہ آنے درست کہا۔ اگر ڈاکٹر صاحب نہ ہوتے تو ہم بھی کہاں ہوتے۔ اگر وہ خضر نہ بنتے تو ہم بھی منزل کا سراغ کہاں پاتے۔ کون کہتا ہے وہ ایک کامیاب زندگی نہیں جیے؟ میں تو کہتا ہوں ان کے جیسا کامران بھلا کب کوئی ہوا ہو گا؟ وہ تو ایسا جیے کہ کوئی کیا جیا ہو گا۔ ورنہ طبعی عمر تو سبھی گزار ہی لیتے ہیں۔