تفصیلات کے مطابق جواب میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک سرود احمد نے کہا کہ 'لاہور بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے ججز اور جرنیلوں کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے بیان سے متعلق اپنے خدشات کے اظہار کرنے کے لیے آپ کا بہت شکریہ'۔
انہوں نے کہا کہ بیان سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو واضح کرنا ان کا سب سے پہلا فرض ہے۔ ایل بی اے ہمیشہ قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑا ہے اور وہ عدلیہ کی آزادی، آئین کی بالادستی اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانونی برادری کے رکن کی حیثیت سے وکلا کو پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔
سرینا عیسی ٰکے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے گیا کہ احتساب کی آڑ میں ریاست کے کسی بھی ادارے کو یہ لائسنس نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بدنیتی کی بنیاد پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کیخلاف ثبوت اکٹھے کرتا پھرے تاکہ ججز کو بدنام کیا جا سکے۔
جواب میں کہا گیا کہ 'جب ہم کسی فرد یا ریاست کے کسی بھی ادارے کے احتساب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی تسکین یا کسی ذاتی مفاد کے لیے کسی فرد یا ادارے پر انگلی اٹھارہے ہیں'۔ ان کا کہنا تھا کہ 'سب کے احتساب کے مطالبے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے کسی بھی طرح سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کے اندراج کی منظوری دے دی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'احتساب کی لپیٹ میں ریاست کے کسی بھی ادارے کو لائسنس نہیں دیا جاسکتا کہ وہ معزز ججز کو بدنام کرنے کے لیے بدنیتی سے ثبوت اکٹھا کرنا شروع کردے'۔
لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر نے واضح کیا کہ اس قرارداد کا مقصد کبھی بھی کسی شخص کی نشاندہی کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد ان تمام لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانا تھا جنہوں نے ملک کی تاریخ میں غیر قانونی طور پر آئین کو منسوخ کیا تھا۔ وکلا نے کبھی اس بات کی تائید نہیں کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قابل احترام ججز اور ان کے اہل خانہ کو بدنام کرنا چاہیے۔
انہوں نے جواب میں کہا کہ 'ہم آپ کی جدوجہد کے معترف ہیں، جس طرح سے آپ نے معزز سپریم کورٹ کے سامنے اپنا کیس پیش کیا اور جس طرح سے آپ اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی ہیں یہ واقعی قابل تعریف ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم وفاقی حکومت کے وزیر قانون اور ان کی ٹیم کی جانب سے شروع کیے گئے بے بنیاد ریفرنسز کے نتیجے میں ہونے والی کارروائی کے دوران آپ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور خاندان کے باقی افراد کو درپیش اذیت کی شدت کو دل سے محسوس کرتے ہیں'۔
خیال رہے کہ سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کو ایک اور کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ 25 جون 2021 کو ان کے والد کی پہلی برسی تھی اور اس دن انہیں اپنی حکومت کی جانب سے آٹھ نوٹس موصول ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نوٹسز میں کہا گیا تھا کہ ان کے کیس میں سپریم کورٹ میں کچھ فائل ہونا ہے یا ہوگیا ہے تاہم انہوں کاپیاں فراہم نہیں کیں کہ وہ تھا کیا؟
انہوں نے کہا کہ 'ایک سال قبل 25 جون 2020 کو ایف بی آر نے پی ٹی آئی کے سابق عہدیدار مرزا شہزاد اکبر نے الزام عائد کیا کہ میں نے اس نوٹس کے ملنے سے انکار کردیا یعنی جس دن میرے والد نے آخری سانس لی تھی، مجھے اپنے والد کے انتقال کا غم منانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ ایف بی آر نے مجھے 9 نوٹس بھیجے تھے اور میں نے فراہم کردہ انتہائی محدود وقت میں اس کا جواب دیا اور خود بھی ایف بی آر کے دفاتر میں حاضر ہوئی'۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ 8 نوٹس بھیجنے کا مقصد بتائیں اور کیا دائر کیا گیا تھا (یا دائر کرنا تھا) جو ان سے خفیہ رکھا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف ایک حکم منثور کیا گیا (بغیر کوئی نوٹس جاری کیے اور نہ ہی اس کی سماعت ہوئی)، انہوں نے اس کے جائزے کا مطالبہ کیا اور بغیر کسی وکیل کے مقررہ 30 دن میں نظرثانی کی درخواست دائر کی۔
انہوں نے کہا کہ 'تاہم مجھے میڈیا سے یہ معلوم ہوا کہ رجسٹرار نے دائر کرنے کے لیے 30 دن کی مقررہ مدت میں توسیع کردی ہے'۔
خط کے اختتام پر سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کو براہ راست ٹیلی ویژن پر ان کا سامنا کرنے کی پیشکش کی کہ اگر وہ ان کی لندن پراپرٹی اور اس کی خریداری کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں تو وہ ان کا سامنا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں دنیا کو اپنی کمائی، بچت، منی ٹریل اور میری جانب سے ادا کردہ ٹیکسز دکھاؤں گی اور اُمید کرتی ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے'۔