لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ دونوں مل کر امن کے لئے کردار ادا کریں؟ اس پر صحافی طلعت حسین نے زرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان گفت و شنید بہت موثر ہے اور جب دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں تو پھر بیسز دینے کی ضرورت نہیں.
دوسری جانب افغانستان میں امریکی افواج کے اعلیٰ فوجی کمانڈر نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی پر تشدد کارروائیاں اور قبضے جاری رہے تو ان پر فضائی حملے کیے جا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے رپورٹ کے مطابق مئی کے آغاز سے دشوار گزار دیہی علاقے میں لڑائی میں اس وقت سے اضافہ ہو گیا ہے جب سے امریکی فوج نے افغانستان سے حتمی انخلا شروع کیا ہے۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں پورے ملک کے چار سو اضلاع میں سے 100 پر قبضہ کر لیا ہے۔
اے ایف پی نے امریکی فنڈ سے چلنے والے ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی سے ایک ویڈیو فوٹیج حاصل کی ہے جس میں امریکی جنرل سکاٹ ملر صحافیوں کو بتا رہے ہیں: ’میں کوئی فضائی حملہ نہیں دیکھنا چاہتا لیکن کوئی فضائی حملہ نہ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ تمام تشدد بند کر دیں۔‘
کیا افغانستان میں تشدد میں اضافے کے بعد افغانستان سمیت پاکستان میں شدپ پسندوں پر ٹارگٹڈ حملے کئے جائینگے پر بات کرتے ہوئے مصنف اور سیکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی فضائی حملوں کا آپشن اپنے پاس رکھے گا اور میں اس چیز سے متفق ہوں کہ ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستان اور افغانستان میں فضائی حملوں میں تیزی لائی جائے گی تاکہ حالات بے قابو نہ ہوں۔
جنرل آسٹن سکاٹ ملر نے واضح کیا کہ میں نے طالبان کو دراصل یہ بتا دیا ہے کہ ’اگر فضائی حملے بند کردیئے جائیں تو اس کا حل یہ ہے کہ وہ افغانستان کے اندر جارحانہ کارروائیاں بند کردیں۔‘
واضح کیا گیا ہے کہ انخلا جاری رکھنے کے باوجود امریکی فوج کے پاس عسکریت پسندوں پر فضائی حملے کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
افغانستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسفزئی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ افغانستان میں ایک ہزار تک فوجی دستہ رکھے گا تاکہ وہ کابل ائیرپورٹ سمیت افغانستان میں امریکی سفارت خانے کا دفاع کرسکے. انھوں نے مزید کہا کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان کے اطراف میں ڈرون طیارے رکھے گا جہاں سے وہ فضائی کارروائی کرسکے گا۔
واضح رہے کہ 2012 میں قبائلی ضلع مہمند کے علاقے سلالہ میں امریکی فورسز کی جانب سے پاکستانی فوج کے چیک پوسٹوں پر فضائی حملے میں دو درجن سے زیادہ فوجی جاں بحق ہوگئے تھے۔ پارلیمنٹ نے اس حملے کے بعد ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستانی سرزمین کو مستقبل میں کسی غیر ملکی آپریشن کے لئے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ پیر کے روز قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے وزارت دفاع پر واضح کیا تھا کہ پارلیمنٹ سے منظور کی گئی قرار داد ہی ہماری پالیسی ہوگی اور اس سے باہر کوئی معاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
نیا دور میڈیا کو وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس سے پہلے بھی ملک میں ڈرون حملے ہوتے تھے مگر ہمارے پاس سوائے احتجاج کا کوئی آپشن نہیں تھا۔ وزارت داخلہ کے اہلکار نے بتایا کہ بظاہر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اگر کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ پاکستان میں نشانہ بنتا ہے تو ہم پر سفارتی دباؤ آئے گا جس سے پھر مزید مسائل جنم لینگے۔