شہرکراچی کے اکثر پارک ایسے ہیں کہ اب وہاں بھی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ باقی ماندہ پارک تباہ حالی کا شکار ہیں سبزے کے نام پرصرف گھاس نظر آتی ہے درختوں کا تو سرے سے تصور ہی نہیں ملتا- پہلے پارک کا ایک فطرتی ماحول آبادی کا حصہ ہوا کرتا تھا جہاں بھنورے، پرندے، تتلیاں نظر آیا کرتے تھے-ہم نے اپنے بزرگوں سے ضرور سنا ہے کہ شہر کراچی بہت سرسبز ہوا کرتا تھااورپرانے اور گھنے درخت ہر جگہ موجود تھے۔ تمام بڑی شاہراہوں کےدونوں جانب برگد، نیم یا پھر پیپل کے درخت کافی قریب قریب ہوا کرتے تھے ۔کراچی میں چھوٹا بڑا کوئی گھر ایسا نہ ہوتا تھاجہاں ایک آنگن اور اس میں ایک درخت موجود نہ ہو بڑے گھروں میں دو چار درخت تو لازم ہوا کرتے تھے۔ کہیں پیپل، نیم، برگد، آم، امرود تو کہیں جنگل جلیبی، چیکو،جامن، پپیتا بلکہ املی تک کے درخت جگہ جگہ لگے نظر آتے تھے۔اس کےعلاوہ تقریبا ہر دوسرے گھر میں کیاری کا تصور موجود تھا جہاں سبزیاں اگائی جاتی تھیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ صرف چند گھروں میں درخت نظر آتے ہیں اور سبزیاں اگانے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا- درختوں کی کمی نےشہر کراچی کے موسم پر مزید بدترین اثرات مرتب کیے۔
پھر بھی کراچی میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں کثیر تعداد میں درخت نظر آتے ہیں بلکہ مختلف طرح کے چرند پرند کی چہچہاہٹ بھی خوشگوار تاثر دیتی ہے یہ ہیں شہر کراچی کے کچھ قبرستان جہاں عموما نیم کے درخت ملتے ہیں مگر اس کے علاوہ بھی مختلف اشجار موجود ہیں جیسے سخی حسن قبرستان یا عظیم پورہ قبرستان یہ وہ مقامات ہیں کہ اگر اس کی زمین پر درختوں کی گنجانیت کا تخمینہ لگایا جائے تو فیریئر ہال کے مقابلے میں یہاں درخت زیادہ ہونگے یوں مجموعی طور پر یہ قبرستان بھی شہر کراچی اور اس کے مکینوں کے لئے آکسیجن حب ہیں یا دوسرے الفاظ میں زندگی فراہم کرنے میں مددگار ہیں-
جبکہ دوسری جانب موسم کی تبدیلی کے نتیجے میں ہمارے ماحول کی نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جس کا مطلب ہے مرطوبیت میں اضافہ ہے۔ اور ایک ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے کراچی اس سے خاص طور پر متاثر ہورہا ہےکیونکہ بڑھتی ہوئی نمی کے ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ صریحا تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ موجودہ سال بہار کے موسم میں شہرکراچی کے مکینوں نے سال کی پہلی شدید گرمی کی لہر کا سامنا کیا اور اپریل کے پہلے ہفتے میں مرکری کی سطح بڑھ کر 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچی اور ایسا ہی درجہ حرارت 1947 میں اپریل کے مہینے میں ریکارڈ کیا گیا تھا جوکہ انتہائی شدید گرم موسم کی نشاندہی کرتا ہے۔
اگر اقوام متحدہ کی رپورٹس کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو سالوں کے درمیان دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی اموات میں سے 13 فیصد شدید درجہ حرارت یا دیگر الفاظ میں حرارت کا اشاریہ بڑھنے کی وجہ سے ہوئیں ۔ حرارت کا اشاریہ( Heat Index) جسےظاہر درجہ حرارت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ ہوا کے درجہ حرارت اور تقابلی نمی کو یکجا کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ایک اندازہ ہے کہ درجہ حرارت انسانی جسم کو کتنا گرم محسوس کرتا ہے۔
عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پچھلے 100 سالوں میں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں 15 سے 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان خصوصا جنوبی خطہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوا جس میں کراچی شامل ہے ۔ کراچی جو کبھی اپنے معتدل موسم کے لئے مشہور تھا بد ترین موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہےصرف رواں سال مرکری 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ جبکہ 2015 میں شدید گرمی کے باعث ہونے والی اموات ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے جس میں سیکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں بیمار ہوئے۔- کراچی کا درجۂ حرارت بڑھنے کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ شہر کی بڑھتی آبادی اور تعمیرات ہیں۔ ماہرینِ تعمیرات اس بڑھتی گرمی کا ایک سبب تعمیراتی اسلوب اور ڈیزائن کوبھی ٹھہراتےہیں کیونکہ تعمیرات میں اب نہ ہی ہوا کا رُخ دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی روشن دان بنائے جاتے ہیں اور یہ بے ہنگم تعمیرات اقتصادیات پر بوجھ ثابت ہوتی ہیں کیونکہ اور اس سے توانائی کی ضرورت بڑھتی ہے
موسمیاتی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ایندھن اور ایئر کنڈیشنرز کا تیزی سے بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے جس کی بدولت شہر میں کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے جبکہ پہلے ہی درختوں اور ہریالی کی کمی ہے تو یہ توازن بگڑتا جارہا ہے یوں شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور مشینیوں کی وجہ سے توانائی کا بے دریغ استعمال شہر کے درجہ حرارت کو بڑھانے میں ممدودو معاون ثابت ہوتا ہے اور حرارت کا اشاریہ بڑھ جاتا ہے ۔ماضی میں سمندری ہوائیں کراچی کے موسم کو معتدل رکھتی تھیں مگر اب صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے کہ ساحل کے ساتھ بلند و بالا عمارتیں ہیں جن کے سبب سمندری ہوا کا راستہ رک گیا تو دوسری جانب سیمنٹ کے ڈھانچے بہت زیادہ گرمی جذب کرنے لگے اور یوں شہر کا درجہ حرارت بڑھتا چلا گیا ۔