انھوں نے مزید کہا کہ ہ وزارت پیٹرولیم ڈویژن میں کل منظور شدہ اسامیوں کی تعداد174 ہے جن میں سے 61 آفسیر اور113 دوسرا سٹاف ہے۔ خالی اسامیوں کی تعداد15 ہے جن میں سے 14 افسران کی خالی ہیں جبکہ پیٹرولیم ڈویژن پالیسی ونگ میں کل اسامیوں کی تعداد223 ہے ان میں سے 49 خالی ہیں جبکہ افسران کی تعداد 62 ہے جن میں سے 21 اسامیاں خالی ہیں۔ سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ سسٹم میں 3800 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداواری صلاحیت ہے۔1200 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کے دو ٹرمینل بھی اسی میں شامل ہیں۔ایل این جی ٹرمینلز کو مرمت کی وجہ سے ایک ہفتے کیلئے بند کیا گیا ہے۔ٹرمینلز کو 6 سال بعد مرمت کیا جا رہا ہے۔پانچ جولائی سے ٹرمینلز سے گیس سپلائی بحال ہو جائے گی۔گھریلو کمرشل صارفین، ایکسپورٹ انڈسٹریز، پاور سیکٹر کو گیس سپلائی ترجیح ہے لیکن گیس سپلائی کم ہونے سے بجلی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے جبکہ تربیلا سے بھی 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
ایم ڈی سوئی سدرن نے کمیٹی کو بتایا کہ گیس ختم ہو رہی ہے اور درآمد کر رہے ہیں، یہ بڑا چیلنج ہے۔سوئی ناردرن کو 9 فیصد اور سدرن کو 14 فیصد لاسز کا سامنا ہے۔لاسز پر قابو پانے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔2017 میں کرک فیلڈ میں 34 فیصد لاسز تھے جو اب 8 فیصد ہو گئے ہیں۔سیکرٹری پیٹرولیم نے کمیٹی کو بتایا کہ وائٹ پائپ لائن منصوبہ جلد مکمل ہو جائے گا۔یکم ستمبر سے پائپ لائن کے ذریعے پٹرول و ڈیزل کی ترسیل شروع ہو گی۔شروع میں ملکی ضرورت کا 35 فیصد آئل پائپ لائن کے ذریعے ترسیل کیا جائے گا۔ پائپ لائن کے ذریعے ترسیل ٹرانسپورٹ اخراجات کم ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کیلئے کوشاں ہیں۔ کمیٹی کو ڈی جی کنسیشن نے بتایا کہ ملک کو تین زونز میں تقسیم کیا گیا ہے اور زون ایف بعد میں شامل کیا گیا ہے جہاں سے گیس نکلتی ہے زون کے لحاظ سے علیحدہ قیمت ہوتی ہے۔ زون ون ہائی رسک ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بڑی کمپنیاں واپس چلی گئی ہیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ویران علاقوں میں کام کرتے ہیں اور سیکورٹی پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ پیرا ملٹری فورس سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے تاکہ سیکورٹی پر کم خرچہ ہو اور باہر کی کمپنیوں کیلئے آسانی پیدا ہو ورنہ مقامی کمپنیاں آگے آتی ہیں۔سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ پی ایس او نے مختلف سرکاری اداروں سے 355 ارب روپے لینے ہیں۔ سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ کس کس فیلڈ میں سیکشن فور نہیں لگایا جاتا اور اگر کہیں سیکشن فور نہیں لگایا جاتا تو کتنا کرایہ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کیلئے ایک یکساں پالیسی ہونی چاہیے اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا یہ پہلا اجلاس ہے۔تمام اراکین کمیٹی، وزارت پیٹرولیم اور متعلقہ اداروں کے نمائندوں کو کمیٹی اجلاس میں خوش آمدید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اراکین کمیٹی اور وزارت کے حکام کے ساتھ مل کر معاملات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔قائمہ کمیٹی وزارت اور حکومت کے درمیان پل کا کردارادا کرتی ہے۔کوشش کی جائے گی کہ تمام اراکین کمیٹی اور وزارت کے ساتھ مل کر موثر حکمت عملی کے تحت معاملات کو مزید بہتر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دیں
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک آئل ریفائنری لگانے کیلئے 14 سے15 ارب ڈالر لاگت آتی ہے۔ پاکستان میں قائم ریفائنریز کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے جس پر3.5 ارب ڈالرلاگت آئے گی۔ 70فیصد خرچہ ریفائنری خود براداشت کرے گی۔ اڑھائی سے 4 لاکھ بیرل کا راستہ خود نکل آئے گااور بے شمار لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کروڈ آئل کی ایمپورٹ پر ڈیوٹی 5 فیصد سے اڑھائی فیصد کر دی ہے۔ ڈیزل کی ایمپورٹ پر ڈیوٹی 13 سے10 فیصد کر دی ہے۔ نئی ریفائنری لگانے پر 20سال تک انکم ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک کے سوا تین کروڑ گھروں میں سے ایک کروڑ گھروں کے پاس گیس کنکشن نہیں ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کراچی میں منظوری کے بغیر تعمیر ہونے والی عمارتوں پر میٹر لگانے کی اجازت نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ صارفین انڈر گراؤنڈ سسٹم سے گیس لیتے تھے اور انہی کو بل ادا کرتے تھے۔ 700 عمارتوں کو ریگولر کر دیا گیا ہے۔ 30 ہزار لوگوں میں سے 50 فیصد نے بل ادا کر دیئے ہیں۔ نان ریگولر عمارتوں پر میٹر لگانے کی اجازت ملنے سے گیس چوری پر کنڑول کیا جا سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے باقی ایجنڈا آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔