لاہور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب کے معاملے پر 25 ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست منظور کرتے ہوئے 8 صفحاتی تحریری فیصلہ جاری کر دیا اور پریذائیڈنگ افسر کو 25 ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کا حکم دیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وزیر اعلی الیکشن کے لیے مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ انتخاب کروایا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلیٰ پنجاب حلف کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت کل 4 بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دوبارہ گنتی کا عمل آئین اور قانون کے مطابق کیا جائے۔ منحرف اراکین کے ووٹ نکال کر حمزہ شہباز کی اکثریت نہیں رہتی تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔ عدالت کے احکامات تمام اداروں پر لاگو ہوں گے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اس وقت تک ختم نہیں کیاجائے گا جب تک نتائج جاری نہیں کیے جاتے۔ صوبے کا گورنر اپنے فرائض آئین کے مطابق ادا کرے گا جبکہ پنجاب اسمبلی کے نتائج آنے کے بعد گورنر دوسرے دن 11 بجے وزیراعلیٰ کا حلف لیں گے۔
عدالت پنجاب اسمبلی کے مختلف سیشنز کے دوران بدنظمی کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور اگر کسی بھی فریق کی طرف سے بدنظمی کی گئی تو توہین عدالت تصور ہو گی۔
لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کے لیے درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے دعویٰ علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ عدالت نے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کا حلف کالعدم قرار دیا ہے اور ہماری درخواستیں منظور ہوئی ہیں۔ ہم نے آئین، قانون اور انصاف کی بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں رہے اور فیصلے میں کہا گیا جو وزیر اعلیٰ ڈیفکٹو کے ووٹ سے منتخب ہوا وہ ٹھیک نہیں۔
سابق صوبائی وزیر راجہ بشارت نے کہا کہ دو ماہ سے ہم پر جو عذاب مسلط تھا وہ اب نہیں رہا۔
پی ٹی آئی رہنما فیاض الحسن چوہان نے دعویٰ کیا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں اب عثمان بزدار نگران وزیر اعلی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے وکیل منصور اعوان جبکہ تحریک انصاف کے علی ظفر اور ق لیگ کے وکیل عامر سعید نے عدالت میں پیش ہو کر دلائل دیئے تھے۔ صدر مملکت کی نمائندگی احمد اویس، اسپیکر پرویز الہی کی بیرسٹر علی ظفر اور امتیاز صدیقی نے کی۔
سماعت کے دوران جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیئے تھے کہ سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات میں لاگو ہو گی، اگر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہو گا تو ہم فوری احکامات جاری کریں گے۔