ماہر قانون اکرم شیخ نے نجی نیوز چینل ڈان کے پروگرام میں اینکرپرسن عادل شاہ زیب سے بات کرتے ہوئے 2019 میں گھر میں ڈاکے کی واردات کے حوالے سےتبصرہ کیا جس میں کچھ اہم دستاویزات چوری ہوئی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ واقعہ سے ایک دن پہلے جسٹس گلزار احمد کی الوداعی تقریب میں صحافی مطیع اللہ جان نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ جسٹس وقار سیٹھ کی ایمپیچمنٹ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کل تک تو آپ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) میں جسٹس وقار کی وکالت کررہے تھے کہ وہ بہت نڈر اور دیانتدار جج ہیں۔ جسٹس وقار کے خلاف ایمپیچمنٹ کی کارروائی شروع کرنے سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج خراب ہوگا۔ اس سے بہتر ہے کہ میں ان کے خلاف توہین کا کیس دائر کر دوں تاکہ معاملات کسی صورت سنبھالے جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ 21 دسمبر 2019 کو رات پونے تین بجے میرے گھر ڈاکہ ڈالا گیا۔ نہایت شریف ڈاکو تھے۔ کسی وردی میں تو ملبوس نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے جوتوں پر بھی جرابیں چڑھا رکھی تھیں۔ ہاتھوں کو بھی اچھی طرح کور کیا ہوا تھا۔ انہوں نے میرے گارڈز کو باندھا اور سی سی ٹی وی کیمرہ کے ویڈیو لنک کے سسٹم کو ناکارہ کر دیا۔ پھر گن پوائنٹ پر مجھے اور میرے بیٹے کو جگایا۔
اکرم شیخ نے کہا کہ جو لوگ ڈاکہ ڈالنے آئے تھے میں نے ان کو کہا کہ آپ ایسے وقت آئیں ہیں کہ جب میں تہجد کے لیے اٹھتا ہوں۔ میں وضو کر کے نماز پڑھ لوں آپ تب تک تلاشی لے لیں۔ جو آپ کو ملتا ہے لے جائیے۔ وہ کوئی اچھا شخص تھا۔ اس نے مجھ سے یہ درخواست کی کہ آپ ہمیں بددعا نہیں دیں گے۔ آج کے دور میں کونسا ایسا ڈاکو ہو سکتا جس کو اپنی عاقبت کی فکر ہو کہ وہ مجھے تہجد پڑھنے دے اور درخواست بھی کرے کہ ہمارے لیے بددعا نہ کیجیے گا۔
https://twitter.com/adilshahzeb/status/1641180086413176833?s=20
سوال کیا گیا کہ جب جنرل باجوہ نے کہا کہ کچھ لوگ ہیں تو وہ تو کوئی بھی ہو سکتا ہے آپ اتنا یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ فیض حمید ہی تھے۔ اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وہ خط کا لفافہ دیکھ کر اس کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ طرزِ گفتگو، اندازِ تکلم، ملاقات سے آدمی کو پتا چل جاتا ہے کہ کون ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکہ پڑنے کے بعد جنرل باجوہ نے ایک معروف اور قابل احترام عالمِ دین کے توسط سے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ 24 دسمبر کو آرمی ہاؤس میں بلایا گیا۔ قریبا ساڑھے تین گھنٹے کی نشست ہوئی۔کھانے کی نشست پر جنرل باجوہ نے کہا کہ آپ کے ساتھ جو زیادتی ہوئی میں اس پر معافی چاہتا ہوں۔ کیونکہ میں ادارے کا سربراہ ہوں اور آپکے ساتھ جو ہوا ہمیں سرسری سا اندازہ ہے کہ شاید اس میں کچھ ایسے لوگ ملوث ہیں جن کا تعلق ہمارے محکمے سے ہے۔
اینکر عادل شاہ زیب نے سوال کیا کہ اتنے بڑے دعوے کے آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ اس کے جواب میں اکرم شیخ نےکہا کہ یہ بات میں خفیہ طور پر کہیں چھپ کر تو نہیں کررہا۔ میں میڈیا پر سامنے آکر کہہ رہا ہوں۔باجوہ صاحب کہہ دیں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ میرے پاس شہادتیں موجود ہیں میں پیش کر دوں گا کہ انہوں نے مجھ سے یہ سب کہا اور معذرت بھی کی۔میری 3 فروری کو جنرل باجوہ سے دوبارہ ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کا جو سامان لُوٹ لیا گیا تھا وہ واپس کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔اور جو ایف آئی آر درج ہوئی اس پر ایک بھی ضمنی نہیں لکھی گئی۔
ایک اور سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے اس وقت جنرل باجوہ کو بتایا کہ آپ کو کن پر شک ہے؟ آپ نے جنرل فیض کا نام لیا؟
اکرم شیخ نے کہا کہ میں جنرل باجوہ کو اس صورت میں بتاتا جب ان کو کچھ پتا نہ ہوتا۔ وہ تو خود مجھے بتا رہے تھے ہمارے کچھ لوگ ملوث ہیں۔ آپ اس بات پر یقین نہ کیجیے گا کہ تمام آپریشنز ادارے کی کمانڈ پر ہی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگ اپنی پسند اور ناپسند کے تحت خودبخود بھی ایسے اقدام اٹھا لیتے ہیں۔
بعد ازاں صحافی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ جنرل باجوہ اور اکرم شیخ کی ملاقات کے بارے میں ایک شخص نے فون کرکے مؤقف دیا کہ 'میں اس ملاقات میں موجود تھا۔ جنرل باجوہ نے اکرم شیخ سےکوئی معافی نہیں مانگی بلکہ تحقیقات کا وعدہ کیا اورکہا اگر ان کا کوئی ادارہ ان کے گھر پر ڈاکے میں ملوث پایا گیا تو وہ ان کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے'۔
https://twitter.com/adilshahzeb/status/1641183992958578689?s=20