جعلی اکائونٹس کی تفتیش پر مامور ایک نیب افسر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشمل ڈویژنل بینچ کے روبرو یہ کہا ہے کہ نیب ٹیم نے چیئرمین نیب سے سبق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری کے لیے اجازت طلب کی تھی۔
مذکورہ بینچ سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کر رہا تھا جس میں عدالت نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ قومی احتساب بیورو درست انداز سے عدالت کی معاونت نہیں کر رہا۔
عدالت نے تفتیشی افسر کی جانب سے جعلی اکائونٹس سے رقوم کی منتقلی پر ان افراد کے تعلق کے حوالے سے ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر پراسکیوشن اور تفتیشی ٹیم کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کا انتباہ بھی کیا۔
عدالت نے جب نیب کے تفتیشی افسر سے وہ تمام دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی جن کی بنیاد پر سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ کو جعلی اکائونٹس کیس سے منسلک کیا گیا تھا تو نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے کہا، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے دائر کردہ عبوری چالان میں دراصل یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان دونوں افراد نے اس جعلی اکائونٹ سے فائدہ اٹھایا ہے۔
سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا، جعلی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی غیر قانونی منی لانڈرنگ کا دعویٰ کیا گیا ہے جب کہ عدالت میں اب محض 15 کروڑ روپے کے ثبوت فراہم کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ گنے کے بڑے کاشت کار ہیں جنہوں نے اپنی فصل اومنی گروپ کو فروخت کی اور رقم بینک کے ذریعے وصول کی۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ 15 کروڑ روپے کی رقم دراصل وہ ادائیگی تھی جو اومنی گروپ کی شوگر ملز کو گنے کی فصل فروخت کر کے حاصل ہوئی۔
عدالت نے جب استفسار کیا کہ نیب نے ان اکائونٹس کو کیوں کر جعلی قرار دیا تو پراسیکیوٹر نے جواب دیا، یہ اکائونٹس مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر کھولے گئے تھے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے وکیل نے عدالت میں کہا، جعلی اکائونٹس کیس کے حوالے سے درج کی گئی ایف آئی آر میں بھی سابق صدر آصف علی زرداری یا فریال تالپور کو نامزد نہیں کیا گیا، سابق صدر کو بعد میں اس کیس میں شامل کیا گیا اور اس وقت یہ مقدمہ کراچی کی بینکنگ کورٹ سے اسلام آباد کی احتساب عدالت منتقل کر دیا گیا۔
جہانزیب بھروانہ نے کہا، سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب کو اس معاملے کی تحقیقات کا اختیار دیا ہے اور اسی بنا پر چیئرمین نیب نے نیب آرڈیننس کی دفعہ 16-اے کے تحت اس مقدمے کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا تھا۔