عدالت نے مدثر نارو سمیت 6 لاپتا افراد کو 17 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ عدالتی حکم کی کاپی وزیر اعظم اور کابینہ ممبران کے سامنے رکھیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئین کی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کے لیے آخری موقع دیتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کو عدالت پیش کریں یا ریاست کی ناکامی کا جواز دیں۔
رانا محمد اکرام بنال وفاق پاکستان کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ 'ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور تمام جانشین چیف ایگزیکٹوز یعنی سابقہ اور موجودہ وزرائے اعظم اپنے متعلقہ حلف نامے جمع کرائیں گے'۔
انہوں نے ہدایت کی کہ حلف ناموں میں بتایا جائے کہ عدالت ان کے خلاف غیر اعلانیہ طور پر جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی کی منظوری اور اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص مسلح افواج کی شمولیت کی اجازت دے کر قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے پر آئین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں کارروائی کا حکم کیوں نہیں دے سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات 'ان دی لائن آف فائر' میں واضح اعتراف کیا ہے کہ ’جبری گمشدگیاں‘ ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی تھی۔
جسٹس من اللہ نے کہا کہ اگر لاپتا افراد کو بازیاب نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے موثر اور قابل عمل اقدامات/فیصلے کیے گئے تو موجودہ اور سابق وزرائے داخلہ ذاتی طور پر پیش ہو کر وضاحت کریں گے کہ درخواستوں کا فیصلہ کیوں نہیں کیا جا سکتا اور ان پر معقول جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے کیوں کہ درخواست گزاروں کو ان کی شکایات سے کے حوالے سے ردعمل اور ہمدردی کی کمی کی وجہ سے ناقابل تصور اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 'اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن کریں گے کہ مستقبل میں مبینہ طور پر گمشدگیوں کی صورت میں وفاق اور متعلقہ صوبوں کے چیف ایگزیکٹوز کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاسکتا‘۔
عدالت نے لاپتا افراد کا معاملہ مؤثر طور پر اجاگر نہ کرنے پر میڈیا کے کردار پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ 'پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا لاپتا افراد کے اہل خانہ کی ناقابل تصور آزمائش اور اذیت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ لاپتا افراد کے معاملے میں یا تو ریاستی طاقت کے غلط استعمال اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین شکل کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر اسے ترجیح نہیں سمجھتے۔
عدالت نے اس معاملے پر پارلیمنٹ کے کردار پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور متعلقہ صوبوں کی قانون ساز اسمبلیاں ریاست کے سب سے اہم اور اہم ادارے ہیں لیکن ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں جو اس بات کی نشاندہی کرسکے کہ انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ایک فعال کردار اپنایا۔