ہوس زدہ معاشرہ اور پھول سے بچے

ہوس زدہ معاشرہ اور پھول سے بچے
ہم ایک روایت پرست قوم ہیں۔ قدیمی انداز معاشرت کی پرستش کرنے والے لوگ۔ ہمارے لئے زمینی و معاشرتی پابندیاں آسمانی پابندیوں سے بھی کہیں زیادہ اہم ہیں۔ ہم موت کے بعد کی زندگی، اس کے حساب کتاب اور سزا و جزا کے نظام پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔

اسی لئے ہماری حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ خدا اور خداخوفی کو کبھی فراموش نہ کیا جائے۔ ہمیں بنیادی مذہبی عبادات کے تقدس و احترام کا بھی ادراک ہے۔ اسی لئے کوشش کرتے ہیں کہ نماز، روزے اور حج کا اہتمام کر سکیں۔ ہر سال دنیا بھر سے حج پر جانے والے حاجیوں کا گیارہ فیصد ہمارے ملک سے ہی جاتا ہے۔ 2019ء کے سعودی، پاکستان معاہدے کے تحت اگلے سال پانچ ہزار حاجیوں کا اضافہ ہونے والا ہے، یعنی کل ایک لاکھ 84ہزار210لوگ حج کی سعادت حاصل کریں گے۔

عمرے کی ادائیگی ہمیں ڈیڑھ لاکھ کے پیکج میں پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود ہر سال بارہ تیرہ لاکھ لوگ عمرے پر جاتے ہیں۔ ہم مذہب پر ایسے کاربند لوگ ہیں کہ اگر اللہ اور اس کے رسول کے نام پر حرف آتا محسوس ہو تو ہم شدید جذباتی اور جنونی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے سامنے کسی بھی شخص کا نام خدا، اس کی کتاب یا اس کے رسول کی بے حرمتی جیسے فعل سے جوڑ دیا جائے تو ہم اس الزام کے ثابت ہونے کا بھی انتظار نہیں کریں گے، ہم آناً فاناً ایک ہجوم کی صورت اسے نوچ کر کھا جائیں گے۔

اس کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دیں گے۔ جیسے ہم نے مشعال کے ہاتھوں تک کی انگلیاں مسل کر اسے ایسی اذیت ناک موت سے ہمکنار کیا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایمان تازہ ہو گیا۔ ہم اپنے بچوں کو قرآن حفظ کروا کے جنت میں اپنا گھر پکا کروالیتے ہیں۔

ختم درود پر ہمارا ایمان سعودی لوگوں سے بھی کئی سو گنا زیادہ پختہ ہے۔ مزاروں پر چادر چڑھانا، چڑھاوے دینا، غریبوں کو اللہ کی راہ میں کھانا کھلانا۔ ہمارا مذہبی جوش اور ولولہ دنیا میں بسنے والی ہر قوم سے زیادہ ہے۔

اور ہاں ہمارے خاندانی نظام کی برکتوں کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ ہمیں مغربی ملکوں کی طرح رشتوں کے قحط کا سامنا نہیں، اس لئے ہم بہت خوش قسمت قوم ہیں۔ ہم مذہب اور اخلاقیات کی تبلیغ کو اپنی زندگی کا ایک اہم فرض سمجھتے ہیں۔

آپ کو ہر شخص ایک واعظ اور مبلغ محسوس ہو گا۔ جیسے اس سے ملے بغیر آپ کی زندگی میں علم و واقفیت کا ایک خلاء سا تھا۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارا معاشرہ روحانیت اور مشرقیت کی اساس پر قائم ہے۔ یہ ہمارا طرہء امتیاز ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر خوبیوں سے ایسا لگتا ہے کہ ہم مغرب کی سفید چمڑی والے بد اعمال لوگوں کی نسبت، پاک باز اور نیک لوگ ہیں۔ ہمیں یہودیوں سے بھی نفرت ہے جو فلسطینی بچوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں۔ وہ انتہائی گھٹیا اور بے حس لوگ ہیں ۔

لیکن کمال حیرت کا مقام ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت سے نفرت کرنے والا یہ معاشرہ جو مغرب کی ہر عورت اور ہر مرد کو زانی پکار کر اس معاشرے کی دھجیاں اڑاتا ہے ،جو چیخ چیخ کر دنیا کی ہر خباثت و بد فعلی کو مغرب سے جوڑتے نہیں تھکتا یہ معاشرہ خود ایک ہوس زدہ معاشرہ بن چکا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=i31zvJhw5hU

ہمارے معاشرے میں حج اور عمرے کا تناسب تو بڑھ رہا ہے لیکن اسی تناسب سے وحشت اور بربریت کے واقعات کا تسلسل بھی بڑھ چکا ہے ۔ ہم خود کو مغرب سے یکسر جدا معاشرہ مانتے ہیں لیکن اپنی بدفعلیوں میں مغرب کے برابر آکھڑے ہوئے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی ہوس کا شکار ننھے منے پھولوں کو بنانے لگے ہیں یہاں ہر روز گیارہ بچے اور سالانہ ایک ہزار بچے جنسی بھیڑیوں کی وحشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 2016 میں بچوں سے بد فعلی کے 453 واقعات رپورٹ ہوئے اور 2017 میں 1441بچوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ 109واقعات ایسے تھے جن میں بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ان بچوں میں سے 640بچوں کی عمریں چھ سے دس سال کے درمیان تھیں اور 961 بچے گیارہ سے پندرہ سال کے تھے۔

2018 میں تین ہزار آٹھ سو بتیس واقعات رپورٹ ہوئے اسی سال بنائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سالوں کے اندر بچوں سے زیادتی کے 17ہزار واقعات ہوئے۔2019 میں اب تک تیرہ سو چار بچے جنسی تشدد کا شکار بنائے گئے جن میں 719 بچیاں اور 575 بچے شامل تھے۔

ایسے واقعات سب سے زیادہ پنجاب میں رونما ہوئے۔ ان واقعات میں 1246 مجرم اجنبی جب کہ 60 رشتہ دار اور 66 پڑوسی، مولوی، اساتذہ اور پولیس فورس کے لوگ ملوث تھے۔ ان واقعات میں سے 66 فیصد واقعات دیہات میں اور 34فیصد شہروں میں ہوئے۔

ننھے معصوموں کی آبرو بریدہ لاشیں دیکھنا ہمارے لئے  روز کا معمول بن چکا ہے۔ ان کی تصویروں سے خون کے چھینٹے ابھر کر انسانیت کے منہ کو داغدار کرتے ہیں،اور ان کے حلق سے نکلتی تکلیف بھری سسکیوں اور چیخوں کی گونج رات بھر آبادیوں کے ویرانوں کی خاموشی کو چیرتی رہتی ہے لیکن ہم اپنے گھروں کے دروازے مقفل کر کے اپنے کمروں میں دبکے بیٹھے ہیں، ہم نے بس اتنا کیا ہے کہ اپنے بچوں سے ان کی مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔

ان کے آزاد رستوں پر پہرے بٹھا دیے ہیں ہمارے بچے اب تتلیوں کے پیچھے بھاگنا یا جگنوﺅں کی روشنی کا تعاقب کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ ہم نے ان سے تازہ اور کھلی فضا میں کھیلے جانے والے کھیل چھین کر ان کے ہاتھوں کی انگلیوں کو مشینی کھیل میں الجھا دیا ہے۔ یہ ان کی مصنوعی خوشیاں ہیں جو کسی طور ان کا دل بہلائے رکھتی ہیں۔ انہیں بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ کا درس دے دے کر وقت سے پہلے ان کی معصومیت چھین لی ہے۔ وہ اب ان دیکھے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔

باہر کا ہر اجنبی انہیں ریپسٹ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ان ریپسٹوں کا کیا جو ہمارے ساتھ ہمارے گھروں کے اندر موجود ہیں۔ وہ چچا، تایا، ماموں، کزن،بھائی اور حتیٰ کہ باپ کے روپ میں بھی موجود ہیں جو رشتوں کے پیار کی آڑ میں اپنی جنسی ہوس کو اس کی تسکین فراہم کرتے رہتے ہیں۔

عموماًشہروں میں یہ کام رازداری سے اور غیر محسوس طریقے سے کیا جاتا ہے جب کہ گاﺅں دیہاتوں میں اس کا اظہار جس طریقے سے کیا جاتا ہے یا تو وہ معصوم بچہ اس گھناﺅنے فعل کے دوران ہی اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے یا پھر اپنی ہوس پوری کر لینے کے بعد، جرم کے نشان مٹانے کے لئے اس بچے کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ جیسے وہ انسانی بچے نہیں بلکہ کسی کتے، بلی کے پلے ہوں۔ اگر انسان میں انسانیت کی معمولی سی بھی رمق موجود ہو تو وہ اس بے دردی سے کبھی کتے یا بلی کے بچے کی بھی دھجیاں نہ اڑا سکے گا۔

ہم مذہبی قوم ہیں اور مذہبیت پر کامل یقین ہے لیکن کتنی دل فگار حقیقت ہے یہ کہ مدرسوں اور گھروں پر اللہ کی کتاب پڑھانے والے قاری و مولوی بھی بچوں کو جنسی طور پر استعمال کرتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=p67yWr18MpM

پاکستان میں بچوں کی پورن ویڈیوز بنانا اور سنگ دلی سے انہیں قتل کر دینا یہ کاروبار تو ایک مکمل انڈسٹری کا درجہ لے چکا ہے لیکن حکومت اس رستے زخم کا مداوا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ شاید کچھ نامور اور طاقتور سیاسی شخصیات آڑے آتی ہوں گی جو جسموں کے اس دھندے سے اپنا مردار چنتی ہیں۔ یا شاید مدینے کی ریاست میں ایسا کوئی جرم سرزد ہی نہ ہوتا ہو گا کہ حکومت اس شریعت کا کوئی ایسا قانون نکال کر مثال بنا سکے، جس کے تحت گناہ گاروں پر گرفت پانا ممکن ہوتا ہو۔ اس لئے اسے ایک فیک کہانی کا نام دے کر فائل بند کر دی گئی ہے۔

لیکن جو بچے روزانہ کی بنیادوں پر انسانی ہوس کا شکار ہو رہے ہیں، کیا ان بچوں پر پہرے بٹھانے کے علاوہ بھی کوئی حل کبھی سوچا گیا ہے جو ان بچوں کو بچا سکے۔ کیا معاشرے میں بڑھتے اس ظلم و بربریت کو روکنے کا کوئی امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے یا محض دو چار مجرموں کو پھانسی پر لٹکا کر ہم اس سنگدلانہ فعل کا تدارک کر پائیں گے؟

جہالت، غربت، بے روزگاری، ناقص تربیت، احساس محرومی، معاشرتی گھٹن اور سب سے زیادہ اہم نیٹ پر پورن فلمیں دیکھنا۔ یہ اور ایسے کئی عوامل ہیں جو بچوں سے زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافے کا سبب بنے ہیں۔

گاﺅں، دیہاتوں میں ایسے واقعات کا تناسب شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ اب دیہاتوں میں بھی نوجوانوں نے نیٹ کا اتنا استعمال تو سیکھ ہی لیا ہے کہ پورن ویڈیوز بآسانی دیکھ سکیں۔ وٹس ایپ کے ذریعے اک دوسرے کو غیر اخلاقی ویڈیوز کا تبادلہ بھی عام ہو رہا ہے۔ بے روزگاری کا شکار یہ مرد اپنی نا آسودہ و تشنہءکام حسرتوں اور خواہشوں کے باعث جس قسم کی نفسیاتی و ذہنی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لئے وہ ہوائے نفس کی آسودگی کے طریقے ڈھونڈتے ہیں اور جب کوئی بھرپور اور مکمل جسم دستیاب نہ ہوسکے تو معصوم بچوں کو کھلونا بنا لیا جاتا ہے۔

وہ بچے جن سے زبان بند رکھنے اور اس واقعہ کا رازدار بنے رہنے کی توقع زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمیں مان لینا چاہئے کہ جن معاشروں میں بچے تک محفوظ نہ ہوں وہ معاشرے بیمار معاشرے ہوتے ہیں اور ہم ایک بیمار معاشرے میں ڈھل چکے ہیں۔ یہاں تعلیم پر توجہ نہ دینا ایک بڑی بیماری کا باعث بن چکا ہے ۔تعلیم سے دوری سماج میں ہنر اور فن کو پنپنے نہیں دیتی۔ وہ فن اور ہنر جو ہمارے معاشرے کی روح پیدا کرتا ہے۔

بنیادی و اعلیٰ اقدار و روایات کا محافظ بنتا ہے۔ انسان اپنی دلچسپیوں کو تعمیری اور تخلیقی بناتا ہے۔ وہ اپنے دماغ میں اعلیٰ و ارفع خیالات کو پنپنے کا موقع دیتا ہے۔ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے جو اپنی فرسودگیوں کا راستہ تخریب میں تلاش کرتا ہے۔ استاد کی اعلیٰ تربیت بھی قصہء پارینہ بنتی جا رہی ہے۔ اور والدین اپنی اولاد پر توجہ کی گرفت بھی چھوڑتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے وہ اپنی ہی اولاد کے شیطانی عزائم کو جان نہیں پاتے۔ درندوں کو ختم کرنا تو ضروری ہے لیکن ان کے خاتمے سے پہلے ہم کئی معصوم بچے گنوا چکتے ہیں تو ضرورت ایسے منظم ومضبوط انتظام کی ہے کہ انسان کو درندہ بننے ہی نہ دیا جائے۔

 

سیاسیات میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعے کو اہمیت دی ۔روح میں تخلیقی جوہر موجود تھا جس کے اظہار کے لئے فکشن نگاری اور ناول نگاری کی طرف طبیعت مائل رہی۔کئی ادبی مجلوں میں افسانے شائع ہوتے رہے۔ ایک ناول ”جیون مایا“ اور افسانوی مجموعہ ”اندر کی چپ “کے نام سے منظر عام پر آئے۔گذشتہ دو سالوں سے اخبار اورمختلف ای میگزین میں کالم نگاری اور بلاگنگ کی مشق بھی جاری ہے ۔مارکیٹ میں آنے والی نئی کتاب ”زندگی،سماج اور تخلیقیت “ عورت،جنس،ادب ،زبان،اخلاقیات،نفسیات و سماجیات کے موضوعات پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔