اس جدید دور میں نقل وحمل کے بے حد تیزترین اور آرام دہ زرائع کے ہوتے ہوئے دنیا کے کسی بھی کونے میں ایسی جگہ یا پہاڑی چوٹی رہی نہیں ہوگی جو انسان نے دریافت یا سر نہیں کی ۔افریقہ کی خونخوار جنگلی حیات کی دریافت سے لےکر روس میں انسانوں کی رگوں میں خون منجمد کرنے والی سرد علاقوں میں راتیں گزارنے تک اور دنیا کی چھت مانے جانی والے سلسلۂ ہائے کوہ، ہمالیہ کےماؤنٹ ایورسٹ، قراقرم کے کےٹو اور ہندوکش کے تریچمیر کو سر کرنے تک یہ تمام کارنامہ ہائے نہ صرف انسان نے ایک دفعہ سرانجام دئیے ہیں بلکہ ان جگہوں کو لوگ اب بطور سیاحت دیکھنے کےلئے بڑے آرام سے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک کے قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں بے حد اونچائی پر واقع ایسے مقامات بھی موجود ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئے ہیں اور یا حال ہی میں دریافت ہوئے ہونگے مگر دریافت ہونے کے بعد بڑی مشکل سے ملکی یا غیرملکی سیاحوں نے دوسری یا تیسری دفعہ اسکی یاترا کی ہوگی۔ ایسا ہی ایک علاقہ جو بہت پہلے دریافت کیا گیا تھا مگر وہاں مقامی لوگوں کے علاوہ کوئی سیاح مشکل سے گیا ہوگا۔ اور وہ اسلئے کہ وہاں تک جانے کےلئے پکی تو کیا کچی سڑک بھی اب تک میسر نہیں تھی۔جبکہ وہاں جانے کےلئے اکثر گھوڑوں اور خچروں کے زریعہ لوگ چار چار،پانچ پانچ دن سفر کرکے پہنچ جاتے تھے۔یہ جگہ ضلع چترال میں واقع بالکل شمال کی جانب افغانستان کی پٹی واخان کے ساتھ جڑا ہوا غیر آباد علاقہ ہے اور سارا سال برف کے چادر اوڑھے ہوئے انسانوں کی شوروغل اور آلودگی سے کئی دنوں کی مسافت پر دور “ بروغل” ہے۔ چترال شہر سے
بروغل جاتے ہوئے راستہ میں ایک چھوٹا اور خوبصورت پہاڑوں میں گھیرا ہوا ایک گاؤں مستوج آتا ہے جو
چترال سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس میں بونی تک 75کلومیٹر سڑک پکی جبکہ باقی کچی اور بہت دشوارگزار ہونے کی وجہ سے سفر کو مزید طول دیکر مستوج تک پہنچنے میں پانچ سے چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
ہم نے بھی ایسا ہی کیا کہ دن کے وقت
چترال سے روانہ ہوئے تو شام کو مستوج پہنچ گئے۔وہاں اپنے ایک واقف بندے سید فقیربابا کے ساتھ انکے خجرہ نما ہوٹل میں شام کے کھانے میں چترالی روٹی اور دوسری قسم کی خواراک و پھل سے سید فقیر ماما نے ہماری تواضع کرکے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مستوج سے مشرق کی جانب 46کلومیٹر کے فاصلے پرشندور واقع ہے جہاں سے ہوتے ہوئے ایک سڑک گلگت کے ضلع غذر کو جاتی ہے جبکہ دوسری سڑک مستوج سےشمال کی جانب وادی یارخون سے ہوتے ہوئے
بروغل کو جاتی ہے۔جبکہ مستوج میں دریائے شندور اور دریائے یارخون مل کر دریائے
چترال کی شکل دھارلیتے ہیں۔ مستوج میں اپنی گاڑی کھڑی کرکے ہم نے سید فقیر کی جیپ بمعہ انکے اور ایک ڈرائیور سمیت میرے دو اور دوست گل حسین مہمند،سیاحت کے دلدادہ عظمت اکبر اور راقم الحروف صبح سویرے ایک انجان مگر کھٹن اور ہر قسم کی تکالیف سے بھرے
بروغل کی 150کلومیٹر پر مشتمل سفر پر روانہ ہوئے۔چونکہ سڑک بہت تنگ،دشوار اور کچی ہونے کی وجہ سے ایک تگڑی گاڑی مشکل سے آٹھ سے دس گھنٹوں میں طے کرسکتی ہے۔
آج کل بروغل پاس تک ایک کچی مگر بہت تنگ اور دشوار سڑک جاتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک خاص قسم کی مقامی جیپوں کے علاوہ کسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹ کےلئے قابل استعمال نظر نہیں آتی۔ جبکہ آج سے تین سال پہلے صرف کشمانجہ تک ایک پرخطر اور تنگ سڑک جاتی تھی۔ ہم وادیِ یارخون میں بریپ، بانگ،پاوور،گزند جہاں سے مشرق کی طرف پیدل راستہ طوئی پاس سے ہوتے ہوئےگلگت کے وادیِ یاسین کو جاتی ہے،دربند،دوبارگر،شُست،یارخون لشٹ،کشمانجہ،گرم چشمہ اور آخر میں ودین کوٹ سے گزر کر پورے سات گھنٹوں میں بروغل پاس تک پہنچ گئے۔ راستہ میں کھبی دریائےیارخون کے ایک کنارےتو کھبی پل پار کر دوسرے کنارے توکھبی پھر پل پار کر دوسرے کنارے جاتے ہوئے ہر قسم کے پرخطر معلق پلوں کو عبور کرتے ہوئےگرم چشمہ کے قریب ودین کوٹ نامی گاؤں میں سید فقیر کی ایک جھونپڑی نما مگر غیر آباد دو کمروں پر مشتمل ایک پناہگاہ میں آرام کے لئے رک گئے۔وہاں ہمارے گائیڈ سیدفقیر کی پہچان والی پچاس سالہ گل بہار بی بی جو واخی زبان بولتی تھی کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چائے پی لی اور پھر اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہوئے۔ دونوں طرف پہاڑ برف کی سفید چادریں اوڑھ کر خاموشی سے ہمارا نظارہ کررہےتھے۔ جبکہ دریا کی تیز موجوں کی خوفناک آوازیں ہماری مشکل میں مزید اضافہ کرتی تھیں۔ مگر ایک ہم تھے کہ رکنے کا نام نہیں لےرہے تھے جبکہ اسی اثنا میں ڈیڑھ گھنٹےکا سفر کرکے ہماری جیپ ایک اونچے اور دشوارگزار پہاڑی پر چڑھنے لگی جس کو بروغل پاس بھی کہتے ہیں۔ راستہ میں ایک سڑک مشرق کی طرف جدا ہوکر چکار نامی گاؤں کو جاتی تھی جہاں سے براستہ درکوٹ سات آٹھ گھنٹے کی پیدل سفر پر محیط ایک راستہ پھر سے گلگت کی وادی یاسین میں داخل ہوتی ہے۔ مگر ہم نےمغرب کی طرف بروغل کا راستہ ہو لیا۔ دو گھنٹہ کی سفر کرکے ہم ایک اونچے علاقہ پر پہنچ گئےتھے جہاں سے ایک سرسبزمگر چند جھونپڑی نما گھروں پر مشتمل بروغل کا علاقہ نظر آنے لگا۔یہ بہت عجیب منظر تھا۔ کیونکہ ایک طرف ہماری آنکھیں اس علاقہ کو دیکھنے کےلئے ترس رہی تھی جبکہ دوسری طرف ہمارے سفر کے پورا ہونے میں چند منٹ ہی باقی رہ گئے تھے۔ گھاس کی سبز قالین اوڑھے ہوئے پہاڑ نظر کو خیرہ کررہے تھے ۔جبکہ ایک عجیب چیز جو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی جو اس حسین منظر کو دوبالا کررہی تھی وہ گلہریوں کی شکل میں بندر جتنا بڑا جانور جس کو مارموٹ یا کنچوہا بھی کہتے ہیں کو دیکھا جو مجھے بہت عجیب لگ رہاتھا۔ اس علاقہ میں یہ جانور بڑی کثرت میں پائے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہاں ہموار اور ریتیلی زمین ہونے کے ساتھ ساتھ گھاس بھی اچھی خاصی مقدار میں اگتی ہے۔ہم
بروغل پہاڑی کے اوپر محو سفر تھے جس کے ایک طرف بہت گہری اور خوفناک کھائی تھی جس کی اونچائی سطح سمندر سے بارہ سے تیرہ ہزار فٹ تھی۔جب ہم وادی
بروغل میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے وادی کے اشکارگاز نامی گاؤں نے ہمیں خوش آمدید کہا جہاں
چترال سکاؤٹس ملیشیا کی ایک چیک پوسٹ اور چند سپاہی اپنی ڈیوٹی پر مامور دیکھنے کو ملے۔
آج سے تین سال پہلے یہ کچی سڑک صرف کشمانجہ تک آتی تھی جبکہ باقی کا سفر اشکارگاز تک گھوڑوں کے زریعہ چھ سے سات گھنٹوں میں مشکل سے طے کیا جاتا تھا۔مگر ہم جیپ کے ذریعہ قریباً دو گھنے ہچکولے کھا کھا کر یہاں تک پہنچے۔
لیکن اگر یہ جولائی کا مہینہ نہ ہوتا تو پھر راستہ میں برف کی وجہ سے جیپ کا آگے جانا ناممکن ہوجاتا۔جبکہ وادئی
بروغل اکتوبر سے مئی تک باقی دنیا سے برف زیادہ ہونے کی وجہ سے کٹ جاتا ہے۔ یہاں اس اشکارگاز گاؤں کے شمال مغرب میں دروازہ پاس نامی گزرگاہ سے ایک راستہ افغانستان کے علاقہ واخان کو بھی جاتی ہے۔ جہاں سردیوں میں برف پڑنے کے بعد خانہ بدوش نیچے اشکارگاز گاؤں میں آکر آباد ہوجاتے ہیں۔یہاں
چترال سکاؤٹس نے ایک پولو گراونڈ بھی بنایاہے جہاں عنقریب پولوں کے مقابلے منعقد کئے جائیں گے مگر جس طرح یہ کھیل کھلاڑی گھوڑوں پر بیٹھ کر کیلتے ہیں اسکے برعکس
بروغل میں یہاں پائے جانے والی جنگلی گائے جس کو یاک جبکہ مقامی زبان میں ژاغو بولتے ہیں پر بیٹھ کر یہ کھیلا جائیگا۔
ہم اشکارگاز سے جونہی آگے بڑھنے لگے تو پہاڑ سر سے دامن تک برف سے ڈھکے ملنے لگے جبکہ خانہ بدوش اپنے گھوڑوں پر سوار ایک پہاڑی سے دوسرے پر چڑھتے ہوئےکسی انجان سفر پر اپنے کتوں اور یاکس یا ژاغوں کے ساتھ اپنی منزل کی طرف دنیا و مافیہاء سے بیزار رواں دواں تھے۔
یہ منظر پہلی دفعہ میں نے دیکھا جو بڑا عجیب لگ رہا تھا۔پوری وادی
بروغل چراگاہوں اور کھلے میدانوں پر مشتمل ہے مگر درخت باالکل ناپید ہیں۔ہم نے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ سفر کیا تو ہم گھریل نامی گاؤں پہنچے جہاں ہمارا راستہ شمال سے مشرق کی طرف مڑتا جارہا تھا جو بالآخر ہم باالکل مغرب سے مشرق کی طرف بجانب سفر ہوگئے تھے۔اشکارگاز سے گھریل تک تقریباً دس سے پندرہ کلومیٹر کا یہ راستہ ہم نے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کیا ہوگا۔
کیونکہ سڑک نام کی کوئی چیز نہیں ہےجبکہ یہاں دریائے
بروغل کا پاٹ اتنا چوڑا ہوجاتا ہے کہ کھبی کھبی یہ پانی کے ایک کھلے جھیل کا منظر پیش کرتا ہے جس میں سے راستہ کئی جگہوں میں سے گزرتا ہے۔ جب ہم شام کے اندھیرے میں گھریل سے لشکرگاز کےلئے نکلے تو راستہ میں ایک جگہ پر دریا کے اندر جانا تھا۔ ڈرائیور نے پانی کا جائزہ لیا تو کہنے لگا کہ پانی زیادہ ہے اسلئے میں کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لےسکتا۔
ہم نے کہا کہ یہاں سے جیپیں اکثر جاتی ہیں تو کہنے لگا کہ رات کو گلیشئر کم پگھلنے کی وجہ سے صبح پانی کی مقدار دریا میں کم ہوتی ہے اسلئے صبح کے وقت دریا پار کرنا ممکن ہوتا ہے جبکہ دوپہر کے بعد شام تک پانی کا بہاؤزیادہ ہوجاتا ہے اسلئے تب دریا پار کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔اب اگر ہمارے گایئڈ سید فقیر ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو ہمارا کیا ہوتا کیونکہ نہ وہاں فون کام کرتا ہے نہ وہاں کوئی ہوٹل یا ریسٹورنٹ کا انتظام ہے۔ یہاں تک کہ نہ خانہ بدوشوں کی واخیک یا
واخی زبان ہماری سمجھ میں تو کیا ان چترالیوں کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ جبکہ ان خانہ بدوشوں کے ساتھ رہنا بڑا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔اب خیر مرتا کیا نہ کرتا سید فقیر کی بدولت ان کی وہاں فضل نامی لڑکے کے ساتھ کچھ واقفیت تھی۔ ہم فضل سے ملے جہاں اس نے ایک چھوٹی سے کوٹھی بنائی تھی جو ہمارے لئے پیش کی گئی۔ وہاں صرف اسکا گھر تھا باقی دو تین گھر ایک دوسرے سے دور دور اونچے پہاڑوں میں تھے جبکہ کچھ پہاڑوں کے اوٹ میں تھے جو نظر نہیں آرہے تھے۔ جبکہ مزے کی بات یہ تھی کہ فضل کو اردو بھی تھوڑی بہت آتی تھی۔ ہمارے پاس خوراک اور سونے وغیرہ کےلئے ساز و سامان پورا تھا۔ رات کو سخت اندھیرا تھا جبکہ اس مہمان خانہ کی چھت میں رات کو روشنی آنے کےلئے ایک بڑا سوراخ بنایاگیا تھا۔مگر بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے رات کو بارش ہونے کی صورت میں اکثر یہ ٹپکتا تھا۔یہ ایک عجیب منظر تھا۔ہمیں بالکل پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ہم دنیا کے کس کھونے میں ہیں اور تاریخ اور دن کونسا ہے۔
ہم نے پھتر کے زمانےمیں زندگی گزارنے والوں کا سنا تھا پر اپنی آنکھوں سےاسے دیکھا نہیں تھا۔ لیکن آج اپنی ہی آنکھوں سے وہ پھتر والا زمانہ دیکھا جو واقعی ہم جیسے لوگوں کےلئے عجیب تھا۔جب ہم رات کو بستر پر لیٹ گئے توفضل نے سید فقیر کو واخی زبان میں کچھ کہا جس کو سید فقیر نے ہم کو بتا یا کہ فضل کہتا ہے کہ ہم نے باہر اپنے کتے مال مویشیوں کی رکھوالی کےلئےچھوڑ دئیے۔ اسلئے اب صبح ہماری آمد تک اس کمرے سےباالکل بھی کسی کام کےلئے باہرنہ نکلنا۔گھریلو گاؤں میں رات گزارنے کے بعد ہماری منزل حال ہی میں دریافت ہونے والی پاکستان کی سب سے اونچی اور دوسری بڑی جھیل کرومبر کی سیر کرنا تھی اسلئے رات گزارنے کے بعد فضل کا گھوڑا چھ ہزار کرایہ پر لیکر بمعہ ضروری سامان صبح سویرے لشکرگاز اور پھر کرومبر جھیل کی طرف نکلے۔راستہ میں بڑے عجیب نظارے دیکھنے کو مل رہے تھے پہاڑ،برف،چشمے،آبشار،گھاس اور مارموٹ جانور کی آوازوں سے محظوظ ہوتے ہوئےہم خانہ بدوشوں کی طرح ایک انجان علاقہ میں محو سفر تھے۔ راستہ میں کھبی کھبی کھبار کوئی خانہ بدوش گدھے پر سامان لادھ کر مل جاتا۔ تو وہ ہم کو پہچان کر سلام کرنے میں پہل کرتے اور پھر ہم اشاروں میں ان سے لشکر گاز کا پوچھتے تو کچھ کہتے اور چلے جاتےتھے۔اسی طرح بہت کھٹن سفر کرنے کے بعد ہم دو گھنٹوں میں لشکرگاز پہنچ گئے۔ جہاں ہمیں صرف دو تین گھر اور ایک چھت والاہوٹل نظر آیا جو ایک بڑے کھلے میدان کے شمال میں تھے۔ اس میدان میں یاکس یعنی یہاں کے مقامی جانور پر بیٹھ کر پولو کا کھیل کھیلا جاتاہے۔ یہاں ہمیں پنجاب کے کچھ سیاح بھی ملے جو پہلی دفعہ کرومبر جارہےتھےجن میں کچھ تو کشمانجہ سے پیدل ایک دن کاپورا سفر کرکے یہاں پہنچ چکے تھے۔ جو ہماری لشکرگاز آمد سے پہلے کرمبر کے لیئے روانہ ہوچکے تھے۔ ہم آگے بڑھتے گئے تو راستہ کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوتا جارہاتھا مگر سفر مزید کھٹن اور دشوار گزار ہوتاجارہاتھا۔ لشکر گاز سے کرومبر کا سفر ہم نے تقریباً سات گھنٹوں میں طے کیا جو ایک ایڈونچر سے کم نہیں تھا۔راستہ میں چھوٹی چھوٹی جھیلیں اور ساتھ ہی ساتھ یاکس کے ریوڑ منظر کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے تھے۔ دن کے تین بجے ہماری نظر سطح سمندر سےچودہ ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع کرومبر جھیل پر جب پڑی تو ایسا محسوس ہوا جیسا ہم نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا اور ناقابل یقین مقصد پالیاہو۔ وہاں جاکر پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے کچھ سیاحوں سے بھی ہم ملے جن میں سے کچھ نے وہاں ایک یا دو راتیں بھی گزاری تھی۔ان سیاحوں کو زندگیاور اپنا شوق پورا کرنے کےلئے جان خطروں ڈال کر پتہ چلا کہ سیاحت کتنی مشکل کام ہے۔۔
اندازً تین کلومیٹر لمبی،ڈیڑھ کلومیٹر چوڑی اور چپن میٹر گہری جھیل کے صاف شفاف پانی میں برفیلے پہاڑوں کے عکس نظر آنے والیخوبصورتی انسان پربےخودی طاری کر دیتا ہے۔ ہم نے وہاں قریباً ایک گھنٹہ گزارا اور واپسی کا انتظام کرنے لگے کہ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کوئی بھی بندہ رات گزارے بغیر یہاں سے واپس لشکرگاز پہنچ نہیں سکتا۔جبکہ راستہ میں کسی بھی قسم کے جنگلی جانوروں خاص کر بھیڑئیوں سے سامنا ہوسکتا ہے۔مگر ہم نہ مانے اور نکلنے لگے۔ہمارے ساتھ گھوڑے والا بھی تھا۔جبکہ شام کاوقت قریب ہو رہا تھا تو برف باری بھی شروع ہوچکی تھی جبکہ کہیں کہیں برف باری کے ساتھ بارش بھی ہوتی تھی۔پورے راستہ میں ہمبغیر چھتریوں کے برف باریاور بارش کی اس سرد موسم میں اپنے راستہ کو دیکھ کر سفر کررہے تھے۔راستہ میں کھبی کھبی خانہ بدوشوں کے کتوں سے بھی پالا پڑتا تھا مگران سے بچنے کےلئے ہم اکثر راستہ تبدیل کر کے کسی لمبے راستہ سے ہوتے ہوئے واپساپنے راستہ پر آجاتے تھے۔خیر ہم لشکرگاز تک بہت تیز جاتے ہوئے رات کے نو بجےبھیگے جسموں اور ٹھٹھرتے ہوئے ہونٹوں کےساتھ پہنچ گئے۔ صبح سویرے پھر لشکرگاز سے گھریل کی دو گھنٹہ پر محیط سفر پر نکلنے لگے اور اس طرح ہم واپس اپنی گھریلوالی رہائش گاہ کو پہنچ گئے۔وہاں سید فقیر اور ہماری جیپ انتظار میں کھڑے تھے۔ہم وقت ضائع کئیے بغیر سارا سامان گاڑی میں رکھ کر واخیخانہ بدوشوں سے رحصت لیکر واپس مستوج اور پھر چترال کےلئے روانہ ہوئے۔