رکن قومی اسمبلی محسن داؤڑ اٹھ کر روسٹرم پر آ گئے اور درخواست کی کہ علی وزیر کے وکیل لطیف آفریدی موٹروے پر دھند کی وجہ سے تھوڑا تاخیر کا شکار ہو گئے تھے لیکن اب وہ موٹروے سے اتر چکے ہیں اور کچھ دیر میں کمرۂ عدالت پہنچ جائیں گے تو براہ مہربانی سماعت کچھ دیر بعد شروع کی جائے۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ معزز جسٹس طارق مسعود نے جواب دیا کہ دیکھ لیں یہ تاخیر آپ کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے محسن داؤڑ کی استدعا قبول کرتے ہوئے کہا کہ چلیں تھوڑی دیر بعد آپ کو سنتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ علی وزیر کے دوسرے وکیل صلاح الدین گنڈاپور کراچی رجسٹری سے وڈیو پر موجود تھے۔ محسن داؤڑ تیزی سے کمرۂ عدالت سے باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور عدالت کے بائیں جانب موجود گیلری میں ان کو فون ملاتے دیکھا تو جا کر پوچھا کتنی دیر میں لطیف آفریدی ایڈووکیٹ صاحب آ رہے ہیں؟ محسن داؤڑ نے جواب دیا کہ بس اسلام آباد ٹول کراس کر لیا ہے، جلد پہنچ جائیں گے۔ میں نے موٹروے ٹول سے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کا فاصلہ ذہن میں رکھتے ہوئے لقمہ دیا یعنی 20 سے 25 منٹ میں؟ محسن داؤڑ نے اثبات میں سر ہلایا تو کمرۂ عدالت میں واپس آ گیا اور آج ٹی وی سے وابستہ ساتھی صحافی عدیل سرفراز کو کان میں سرگوشی کی کہ 20 سے 25 منٹ لگیں گے۔ محسن داؤڑ بھی واپس آ کر کمرۂ عدالت میں بیٹھ گئے۔
چند منٹ بعد ہم سب صحافی کمرۂ عدالت سے باہر آ کر خوش گپیوں میں وقت گزارنے لگے۔ 10 بجے ہم سب اس امید سے کمرۂ عدالت میں لوٹ آئے کہ اب سپریم کورٹ بار کے سابق بزرگ صدر اور وکیل لطیف آفریدی کسی بھی وقت کمرۂ عدالت پہنچ جائیں گے۔ 10 بج کر 10 منٹ پر ایک مقدمے کی سماعت مکمل کی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے محسن داؤڑ سے پوچھا کہ کہاں ہیں وکیل صاحب پتہ کر کے بتائیں تاکہ سماعت کریں۔ این اے 48 سے رکن قومی اسمبلی محسن داؤڑ پھر کمرۂ عدالت سے باہر جا کر فون کرنے لگے اور واپس آئے تو ان کے چہرے پر کافی اطمینان تھا اور انہوں نے عدالتی عملے کو آگاہ کیا کہ لطیف آفریدی سپریم کورٹ کی پارکنگ سے اب کمرۂ عدالت کی طرف آ رہے ہیں۔
اب جیسے انتظار کی گھڑیاں طویل ہونے لگیں۔ جب بھی کمرۂ عدالت کا دروازہ کھلتا تو سب صحافی دروازے کی طرف دیکھتے کہ شاید لطیف ایڈووکیٹ داخل ہونے لگے ہیں اور محسن داؤڑ بھی اپنی نشست سے سر گھما کر دیکھتے کہ شاید علی وزیر کے وکیل لطیف آفریدی ایڈووکیٹ پہنچ گئے ہیں۔ تھوڑا وقت مزید گزرا تو 10 بج کر 20 منٹ پر عدالتی عملے نے پھر محسن داؤڑ سے ہاتھ کے اشارے سے وکیل کا پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ بس اوپر آ رہے ہیں کیونکہ کورٹ روم نمبر پانچ پہلی منزل پر واقع ہے۔ لاٹھی کے سہارے چلنے والے 78 سالہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو بہت بھی آہستہ چلتے تو کمرۂ عدالت تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ نہیں تو حد سے زیادہ بھی دس منٹ لگنے چاہیے تھے لیکن وہ ساڑھے 10 بجے بھی کمرۂ عدالت میں نہ پہنچے تو محسن داؤڑ کے چہرے پر پریشانی واضح نظر آنے لگی۔ صحافیوں میں لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ پر چہ مگوئیاں ہونے لگیں تو 10 بج کر 40 منٹ پر ہم نے ہاتھ کے اشارے سے محسن داؤڑ کو پوچھا کہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کمرۂ عدالت پہنچیں گے یا نہیں تو انہوں نے ہاتھ سے ٹی وی کی سکرین کا اشارہ بنا کر جواب دیا کہ اگر وہ نہیں پہنچتے تو ویڈیو لنک پر موجود صلاح الدین گنڈاپور دلائل دیں گے۔ 10 بج کر 42 منٹ پر کمرۂ عدالت کا دروازہ تھوڑا سا کھلا تو سینیئر صحافی راشد حبیب نے کان میں سرگوشی کی کہ آ گئے لطیف آفریدی۔ میں نے سر کو تھوڑا سے سائیڈ پر کر کے دیکھا تو لطیف آفریدی کمرۂ عدالت کے وکلا اور سائلین کے لئے مخصوص دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نظر آ رہے تھے لیکن وہ اندر داخل نہیں ہو رہے تھے۔ تین معزز ججز کو ایک گھنٹہ پندرہ منٹ انتظار کروانے والے لطیف آفریدی ایڈووکیٹ بظاہر شہنشاہوں کی طرح کمرۂ عدالت سے باہر رہ کر شاید انتظار کر رہے تھے کہ اگر ایک سال سے جیل میں بند رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا مقدمہ پکارا جائے گا تو وہ کمرۂ عدالت کو عزت بخشیں گے۔ سب صحافی انتہائی حیرت اور مایوسی سے انسانی حقوق کے چیمپیئن اور مظلوموں کی آواز ہونے کے دعویدار لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا یہ رویہ نوٹ کر رہے تھے۔ جب علی وزیر کا مقدمہ پھر بھی نہ پکارا گیا تو لطیف آفریدی ایڈووکیٹ 10 منٹ کمرۂ عدالت کے دروازہ کے باہر موجود رہنے کے بعد بالآخر 10 بج کر 52 منٹ پر کمرۂ عدالت میں آ گئے اور ان کو دیکھ کر محسن داؤڑ کی جان میں جان آئی۔
سیریل نمبر 19 کے مقدمے کی سماعت مکمل ہوئی تو عدالتی وقفے کا وقت 11 بج چکے تھے اور معزز بنچ اٹھ کر چلا گیا۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ بھی اٹھے اور محسن داؤڑ کے ساتھ کمرۂ عدالت سے چلے گئے جب کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کمرۂ عدالت میں ہی موجود رہے۔ ساتھی صحافی عدیل سرفراز نے سپریم کورٹ کی کینٹین لے جا کر چائے پلائی اور 11 بج کر 25 منٹ پر پھر کمرۂ عدالت میں آ گئے۔
11 بج کر 33 منٹ پر کورٹ آ گئی کی پھر آواز لگی تو معزز جج صاحبان کمرۂ عدالت میں آ گئے لیکن لطیف آفریدی ایڈووکیٹ ایک بار پھر کمرۂ عدالت سے غیر حاضر تھے۔ سیریل کے لحاظ سے 19 مقدمات کی سماعت ہو چکی تھی اور صرف دو مقدمات کی سماعت باقی تھی۔ سب صحافی سوالیہ نظروں سے بار بار ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ آج علی وزیر کی درخواست ضمانت لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کی افسوسناک لاپروائی کی وجہ سے موخر ہو گئی تو معزز بنچ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اس دوران میں سوچ رہا تھا کہ وکلا سیاست کا اتنا بڑا نام لطیف آفریدی ایڈووکیٹ ایک منتخب نمائندے علی وزیر کے مقدمے کے ساتھ یوں غفلت برت رہا ہے جس کے ایک سال سے جیل میں قید علی وزیر کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ معزز جج صاحبان تمام مقدمات کی سماعت کے بعد علی وزیر کی درخواست کے لئے خصوصی طور پر دوبارہ نہیں بیٹھیں گے اور ہو سکتا ہے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پہلے ہی پانچ ماہ کی تاخیر سے سماعت کے لئے مقرر مقدمے کو غیر معینہ مدت کے لئے التوا میں ڈال دیں یا درخواست ضمانت ہی مسترد کر دیں۔
آخری مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو 11 بج کر 40 منٹ پر لطیف آفریدی ایدوکیٹ کمرۂ عدالت میں تشریف لے آئے۔ اس موقع پر میں دل ہی دل میں اتنے بڑے نام لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا موازنہ اپنے نوجوان وکلا حیدر امتیاز، عمر گیلانی، ایمان مزاری، سکندر نعیم قاضی، رمشا کامران اور عثمان وڑائچ سے کر رہا تھا جنہوں نے بغیر کوئی فیس لیے تین مختلف مقدمات میں اسلام آباد اور پنجاب کی تین ماتحت عدالتوں سمیت دو ہائی کورٹس میں میرا دفاع کیا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے میرے وکلا رات 3 بجے تک وٹس ایپ گروپ میں میرے کیس سے متعلقہ دستاویزات کے ڈرافٹ شیئر کرتے اور ان پر تبادلہ خیال کرتے اور صبح عدالتوں میں پیش بھی ہوتے۔ آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے اسلام آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع راولپنڈی کی ایک ماتحت عدالت نے ہفتے میں دو سے تین بار صبح 8 بجے طلب کرنا شروع کر دیا تو سونے کا چمچہ منہ میں لیے پیدا ہوئی میری ایک انتہائی قابل وکیل ایمان مزاری روز مجھ سے بھی پہلے کمرۂ عدالت میں موجود ہوتی تھی۔ لیکن دوسری طرف اتنا بڑا نام لطیف آفریدی ایڈووکیٹ اپنے مؤکل علی وزیر کے مقدمے کے ساتھ یہ سلوک کر رہے تھے۔ ہم معزز سپریم کورٹ پر علی وزیر کی درخواست ضمانت سننے پر پانچ ماہ کی غیر ضروری تاخیر کرنے پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں لیکن آج اگر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ علی وزیر کی ضمانت میں مزید تاخیر کا باعث بننے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے تو ان پر بھی تنقید مکمل جائز ہے۔
12 بج کر 43 منٹ پر کمرۂ عدالت میں علی وزیر بنام سرکار ایک بار پھر پکارا گیا تو لطیف آفریدی ایڈووکیٹ اٹھ کر روسٹرم پر آ گئے جب کہ وڈیو لنک پر صلاح الدین ایڈووکیٹ بھی روسٹرم پر آ کھڑے ہوئے۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود نے لطیف آفریدی ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ علی وزیر کی۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے پوچھا تو صلاح الدین گنڈاپور ان کے وکیل نہیں ہیں؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ وہ مرکزی وکیل ہیں، میں اس کیس میں دوسرا وکیل ہوں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے اب پوچھا تو کیا آپ کے پاس علی وزیر کی وکالت کا پاور آف اٹارنی ہے؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں شروع سے اس مقدمے کے ساتھ منسلک ہوں، آپ کیس فائل میں دیکھ سکتے ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالتی عملے سے کہا کہ دکھائیے اور تسلی کے بعد پوچھا کہ آپ دونوں میں سے دلائل کون دے گا؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے بنچ کو آگاہ کیا کہ پہلے صلاح الدین گنڈاپور دلائل دیں گے اور پھر میں کچھ گذارشات کروں گا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور کو دلائل کی دعوت دی تو انہوں نے ایف آئی آر کا متن اور پولیس چالان کی تفصیلات پڑھنی شروع کر دیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے دو منٹ تک ایف آئی آر اور چالان کی تفصیلات سننے کے بعد علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور سے کہا کہ آپ اپنے ضمانت کے گراؤنڈز بتائیں اور بتائیں سندھ ہائی کورٹ کے ضمانت مسترد کرنے کے احکامات میں کیا غلطی ہے؟ صلاح الدین گنڈاپور نے جواب دیا کہ پیرا 31 پر بہت بڑی غلطی ہے، پنجاب فرانزک لیب جہاں سے علی وزیر کی تقریر کا فرانزک کروایا گیا وہ پشتو کی تقریر کا ترجمہ نہیں کر سکتے اور جنہوں نے ایف آئی آر کا اندراج کیا وہ دونوں بھی پشتو نہیں بول سکتے بلکہ ایک سندھی اور دوسرا پنجابی بولتا ہے تو انہوں نے کیسے اخذ کیا کہ علی وزیر نے ریاست سے بغاوت اور لوگوں کو مسلح جدوجہد پر اکسانے کی تقریر کی؟
بنچ میں دائیں طرف بیٹھے جسٹس امین الدین خان نے سوال پوچھا کہ تقریر کا ترجمہ تو ہوا نہیں تھا؟ علی وزیر کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ پنجاب فرانزک لیب کا کام نہیں تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور کو ہدایت دی کہ وہ تقریر کے متن پر بات کریں۔ صلاح الدین گنڈاپور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ دیکھیے یہ تقریر ایک شکایت تھی جیسے کسی کی بجلی منقطع ہو جائے تو وہ شکایت کرے گا ویسے ہی یہ علی وزیر بھی ریاست سے شکایت کر رہے تھے ان کے گھر میں چھ لوگ شہید کر دیے گئے۔ وہ شکایت نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟
تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال پوچھا کہ علی وزیر ہتھیار اٹھانے کی بات پاکستان کے خلاف کر رہے تھے یا بھارت کے؟ علی وزیر کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ بات ایک خاص تناظر میں کی گئی اور علی وزیر گولیاں چلانے والوں کے سامنے کھڑا ہونے کی بات کر رہے تھے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ میں نہیں چاہتا تقریر کے ترجمے میں جو لکھا ہوا ہے وہ یہاں پڑھا جائے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے علی وزیر کے وکیل سے پوچھا کہ علی وزیر نے جو کچھ کہا اس پر آپ کے پاس کیا فرد جرم عائد ہوتی ہے، وہ بتائیں یا پراسیکیوٹر سے پوچھیں؟ علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈا پور نے جذباتی ہو کر جواب دیا کہ ریاست نے علی وزیر پر بغاوت کی ایف آئی آر درج کر دی، یہ الزام سب سے پہلے اس ملک میں فاطمہ جناح پر لگا تھا۔ معزز جسٹس سردار طارق مسعود نے علی وزیر کے وکیل کو ٹوکا کہ یہ سیاسی باتیں یہاں مت کریں، اس کے لئے پارلیمنٹ موجود ہے، آپ کیس کے میرٹس پر بات کریں۔ علی وزیر کے وکیل نے دلیل دی کہ سر اس کیس میں کوئی گواہ نہیں اور پولیس خود گواہ بنی ہوئی ہے۔
اس موقع پر اسلام آباد میں کورٹ روم نمبر پانچ کے روسٹرم پر موجود لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے تین رکنی بنچ سے بات کرنے کی اجازت مانگی اور عرض کیا کہ یہ کیس آزادی اظہار رائے کا بھی ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ہدایت کی کہ آزادی اظہار رائے کا آرٹیکل پڑھ کر بتائیں۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے آئین کا آرٹیکل 19 پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بغاوت کے مقدمے میں پہلے پراسیکیوشن ثبوت اکٹھے کر کے ہوم ڈپارٹمنٹ اور حکومت کو دیتی ہے اور پھر وہ ثبوتوں کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فلاں فلاں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے جب کہ علی وزیر پر بغاوت کے مقدمے کے اندراج میں یہ طریقہ کار پورا نہیں کیا گیا۔ پولیس صرف یہ شکایت محکمہ داخلہ کو بھجوا سکتی تھی کہ اس شخص نے بغاوت کرنے اور ہتھیار اٹھانے کی لوگوں کو ترغیب دی ہے۔ حکومت انکوائری کر کے جانچ کرتی کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے حکم دیا کہ پڑھ کر دکھائیں کیا لکھا ہے سیکشن میں؟ کیا ایف آئی آر کے اندراج سے روکا گیا؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے پڑھ کر سنایا اور کہا کہ پارٹ 2 میں یہ واضح لکھا کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں یہ حکومت نے دیکھنا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے آبزرویشن دی کہ آپ کی بات سمجھ آتی ہے لیکن کہا گیا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک عدالت ایکشن نہیں لے گی۔ ویڈیو لنک پر موجود علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور بولے کہ لیکن یہاں پر انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ایکشن لے لیا ہے اور فرد جرم بھی عائد کر دی ہے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے ہاتھوں سے پتھر مارنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کیا کوئی شیشے کا گھر ہے جو کنکر مارنے سے ٹوٹ جائے گا؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کی بات کریں۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ علی وزیر ایک منتخب عوامی نمائندہ ہے تقریر کرنا اس کا حق ہے اور علی وزیر نے جو بات کی کیا اس کے بعد کوئی حملہ ہوا ریاست پر؟ کیا کسی نے ہتھیار اٹھایا؟ کوئی گولی چلی؟ جب ایسا کوئی غیر قانونی کام ہوا ہی نہیں تو پھر بغاوت کی ایف آئی آر کیسے درج ہو گئی؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے آبزرویشن دی کہ آپ عوامی نمائندے کی بات کر رہے ہیں، میں تو سمجھتا ہوں کہ ایک غریب آدمی کو بھی اپنی بات کہنے اور تقریر کرنے کا حق ہے۔
لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ پھر کس لئے علی وزیر کو ساڑھے گیارہ ماہ سے جیل میں رکھا ہوا ہے؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ 16 دسمبر کو تو ایک سال پورا ہو جائے گا علی وزیر کو قید ہوئے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب فرانزک لیب اور پشتون اکیڈمی دونوں نے تقریر کو منفی قرار نہیں دیا پھر بارہ ماہ سے علی وزیر جیل میں کیوں بند ہے؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ انہوں نے علی وزیر ایڈووکیٹ کے اہلخانہ کے رابطہ کرنے پر سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھا کہ آپ نے تین ماہ سے فیصلہ کیوں دبایا ہوا ہے تو پھر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا اور علی وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ علی وزیر پر ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر گرفتاری اور پھر ٹرائل تک تمام کا تمام عمل مکمل بدنیتی پر مبنی ہے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے اس موقع پر سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ علی وزیر کی میرٹ پر ضمانت بنتی ہے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے عدالت کو اپنے دلائل کی سپورٹ میں سپریم کورٹ کے تین فیصلے دیے جن میں سے ایک سلمان تاثیر مرحوم کے کیس کا بھی تھا۔
لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہو گئے تو تین رکنی بنچ کے جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بات کی کہ علی وزیر عوامی نمائندہ ہے تو بتا دوں قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پراسیکیوشن کے دلائل کی باری آئی تو پراسیکیوٹر جنرل سندھ روسٹرم پر آ گئے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو مخاطب کر کے ہدایت دی کہ وہ ترتیب وار بتائیں مقدمے میں کیا کیا جرم بتایا گیا ہے؟ ایف آئی آر میں کون کون سی دفعات لگائی گئیں اور بعد میں کون کون سی دفعہ شامل کی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیا سر سازش کا جرم ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے سازش کا جرم رد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ غلام حسین کیس کے بعد یہ سازش کا جرم نہیں بنتا کیونکہ آپ کو تقریر کا دہشتگردی سے تعلق جوڑنا ہوگا ورنہ سازش نہیں کہلائے گی۔ ججز کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود اور فوجداری مقدمات کے ماہر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ مجھے تو حیرت ہے اس کیس میں انسداد دہشتگردی کی دفعات کیسے لگا دی گئیں لیکن میں کچھ نہیں کہوں گا کیس کی اس سٹیج پر ورنہ پراسیکیوشن کا کیس خراب ہو جائے گا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کہاں ثابت ہوئی ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے پراسیکیوشن سے ایف آئی آر میں موجود تمام دفعات کی سزا باری باری پوچھی اور پھر ٹی ایل پی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہاں لوگوں کی ضمانتیں منسوخ کیں جنہوں نے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا اور توڑ پھوڑ کی لیکن ریاست نے ان سب پر قانون کا اطلاق کیے بغیر انہیں جیل سے رہا کر دیا۔ یہاں آپ نے دہشتگردی کی تمام دفعات لگا دیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے طنزیہ انداز میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کل اگر آپ (یعنی ریاست) کی پی ٹی ایم سے بھی بات چیت ہو جائے تو ان کو بھی چھوڑ دیں گے؟
پراسیکیوٹر جنرل سندھ خاموش رہے تو جسٹس سردار جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ اس ایف آئی آر میں دو دیگر ملزمان بھی گرفتار ہوئے تھے لیکن ان کی تو ضمانت ہو گئی۔ کیا آپ نے ان کی ضمانت کے فیصلے کو چیلنج کیا؟ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس سردار طارق مسعود نے کمرۂ عدالت پر نظر ڈال کر پوچھا کہ کیا اس کیس کا تفتیشی آیا ہوا ہے؟ وکیل نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس سردار طارق مسعود نے برہم ہو کر فائل جھٹکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ تو حالت ہے سنجیدگی کی۔ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیا کہ سر آپ چالان کو دیکھیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ نفرت انگیز تقریر کا الزام سب پر ہے لیکن آپ نے جیل میں صرف ایک کو رکھا ہوا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال پوچھا کہ کیا چالان میں علی وزیر کو دوسروں سے الگ کیا گیا یا سب کا جرم ایک ہی رہنے دیا گیا؟ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ اس کیس کی دو ڈی وی ڈیز ہیں جو فرانزک کے لئے گئیں اور اس میں جلسے کے تمام شرکا کی تقاریر موجود تھیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ الزام یہ تھا کہ تمام تقاریر نفرت انگیز ہیں تو پھر باقی سب کو ضمانت ملی اور علی وزیر پر دہشتگردی کی دفعات کا اطلاق کر کے جیل میں ڈالا گیا؟ پراسکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیا کہ باقی سب کے خلاف ابھی انکوائری ہو رہی ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے تو پہلے علی وزیر کے خلاف بھی انکوائری کر لیتے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس سردار طارق مسعود کے ریمارکس کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا یہ بدنیتی نہیں کہ دوسروں کی تقریر کا تو جائزہ لیا جا رہا ہے لیکن علی وزیر پر فرد جرم بھی عائد ہو گئی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیا کہ علی وزیر اپنی تقریر سے انکاری نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ کہا ہے اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے طنز کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس جلسے میں ایک تقریر والا برا اور باقی تقریر کرنے والے اچھے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے نمائندے پراسکیوٹر جنرل سندھ کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اپنے لوگ ہیں اور اپنے ہی لوگوں سے گلہ کر رہے ہیں۔ آپ کو تو چاہیے کہ ان کو گلے سے لگائیں۔ آپ ان پر ایف آئی آرز درج کر کے جیلوں میں ڈال کر اپنا دشمن بنا رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ریاست یہ کرتی ہے اپنے شہریوں کے ساتھ؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال پوچھا کہ اس کیس میں کتنے لوگ جیل میں بند ہیں؟ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور نے بتایا کہ صرف ایک ہی بند ہے جو علی وزیر ہے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے تین رکنی بنچ کو بتایا کہ علی وزیر کے خلاف جب انکوائری میں تقریر پر کچھ ثابت نہیں ہوتا تھا تو انہوں نے دہشتگردی کی دفعات لگا دیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ اگر باقی ملزمان کے بارے میں انکوائری ہو سکتی تو علی وزیر کے معاملے میں بھی یہی ہو سکتا تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ دوسرے ملزمان کے ساتھ سلوک اور علی وزیر کے ساتھ سلوک میں قانون کے اطلاق میں تسلسل موجود نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے ضمانت مسترد کرنے پر اصرار کی کوشش کی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے تنبیہ کی کہ اگر آپ نے اصرار کیا تو ہم پھر دہشتگردی کی دفعات کے اطلاق پر کچھ لکھ دیں گے اور آپ کا کیس یہیں ختم ہو جائے گا۔ پراسکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ علی وزیر پر مزید ایف آئی آرز بھی درج ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا باقی مقدمات میں ضمانت ہو چکی یا ابھی کسی اور میں بھی رہتی؟ پراسکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیا کہ وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ آپ نے باقی مقدمات میں علی وزیر کو پاس رکھنا ہے یا چھوڑنا ہے یہ آپ جانیں لیکن اس درخواست ضمانت کا فیصلہ ہم ابھی سنائیں گے۔
اس کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود نے زیر سماعت مقدمے میں قانون کے اطلاق میں ربط نہ ہونے کے گراؤنڈز پر این اے 50 کے ایم این اے علی وزیر کی درخواست ضمانت چار لاکھ کے ضمانتی بانڈز کے عوض منظور کر لی۔ کمرۂ عدالت سے باہر نکل کر پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین سے پوچھا کہ کیا علی وزیر پر ابھی بھی کوئی ایف آئی آر ایسی ہے جس میں ابھی انہیں ضمانت نہیں ملی؟ منظور پشتین نے راقم کو بتایا کہ ایک آخری مقدمے میں ضمانت ملنی رہ گئی ہے جس کی سماعت کل سندھ ہائی کورٹ میں ہوگی۔ اس گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی وزیر آج سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد بھی رہا نہیں ہو سکیں گے بلکہ انہیں ابھی کل سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور امتحان سے بھی گزرنا ہوگا۔