ایک مرتبہ ابتدا کی ملاقاتوں میں میں نے ایسے ہی ان سے پوچھا کہ ضیا صاحب آپ نے کب صحافت شروع کی تو کہنے لگے کہ تم 1962 میں کس کلاس میں پرھتے تھے، تو میں نے کہا کہ سر میں نے 62 میں ہی سکول جانا شروع کیا، تو کہا کہ بس تم نے سکول جانا شروع کیا اور میں اس زمانے میں صحافت کا آغازہ کیا۔
وہ ہر صحافی کے لئے مشعل راہ تھے۔ استاد تھے۔ ان کی حیثیت میڈیا کے شعبے میں کام کرنے والے ہر پروفیشنل کے لئے قابل احترام اور غیر متنازع تھی۔
میری پہلی ملاقات ضیا صاحب سے 1996-97 میں پاکستان ٹیلی وژن کی اکیڈمی میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے ہمیں پارلیمانی رپورٹنگ پر ورکشاپ میں لیکچردیے۔ ورکشاپ کے دوران میں نے ان سے سوال کیا کہ سر ہم کیا طریقہ اختیار کریں کہ پی ٹی وی میں غیر جانبدار رپورٹنگ رائج ہو اور خبر کے شعبے کو بہتر کیا جا سکے۔ جواب دیا کہ بس دروازے پر دستک دیتے رہا کرو، ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ارباب اختیار کوغیر جانبدار رپورٹنگ کی عادت ہو جائے گی۔
خیر وہ دن تو کبھی نہ آیا لیکن ضیا صاحب سے باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت بڑھ گیا جب ہم نے 2013 میں پی ٹی وی کا انگریزی چینل شروع کیا تو میں چینل کی پروگرامنگ کی نگرانی کرتا تھا اور ہمیں اچھے اور غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی ہر وقت تلاش رہتی تھی۔ میری ٹیم کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ ضیاالدین صاحب کو ہفتے میں کم از کم دو بار ضرور بلا لیا کریں۔ تاہم، ضیا صاحب کہا کرتے تھے کہ یار روز روز آنا اچھا نہیں لگتا۔
انہی دنوں وہ انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون کے ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے۔ اخبار کا نیو یارک ٹائمز کے ساتھ اشتراک تھا۔ غیر ملکی اخبار میں پاکستان کے بارے میں ایک تنقیدی کالم چھپا جسے اخبار کے مالکان نے سنسر کرا دیا لیکن تنقید کا نشانہ ضیا صاحب کو بنایا گیا۔ اسی دن میری ملاقات سیفما کی ایک تقریب میں ضیا صاحب سے ہو گئی تومجھے کہا کہ میرے سامنے اس وقت دو راستے ہیں، ایک یہ کہ میں اخبار چھوڑ دوں یا دوسرا یہ کہ مالکان کے ساتھ احتجاج کروں۔ تاہم، انہوں نے وضاحت یہ بھی دی کہ امریکی اخبار کے ساتھ سمجھوتے میں یہ طے ہے کہ پاکستان کے خلاف مواد کو چیک کیا جائے گا۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر اس پر میں اخبار چھوڑتا ہوں تو اس کا فائدہ دوسرے اخباروں کو ہو گا کیوں اس زمانے میں ایکسپریس انگریزی کافی مقبول تھا۔
ایکسپریس ٹربیون کے مالکان سے ان کا تناؤ کافی بڑھتا گیا اور کئی معاملات میں ان کے اختلافات مالکان سے سخت ہوتے گئے جن میں 2014 میں جیو نیوز کے اینکر حامد میر پر کراچی میں حملہ اور اس پر ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹنگ اور پھر عامر لیاقت کی ایکسپریس ٹی وی پر رمضان ٹرانسمیشن اور روزانہ کی بنیاد پر اخبار میں اس کی پروجیکشن کی وجہ سے ان پر اخبار کے سٹاف کی طرف سے دباؤ بڑھتا گیا۔ آخر کار نہوں نے اخبار سے استعفا دے دیا۔
میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ انہیں مجھ پر کافی اعتبار تھا۔ بہت سے معاملات مجھ سے وہ براہ راست زیر بحث لاتے تھے اور مشاورت کیا کرتے تھے، حالانکہ میں نے کبھی ان کے ماتحت کام نہیں کیا۔ مجھے ایک دن ٹیلی فون کیا اور کہا کہ عصمت تم میری پوزیشن جانتے ہو اور میں اپنی پوزیشن کی وجہ سے کسی کو اپنے لئے ملازمت کے لئے نہیں کہہ سکتا۔ اگر کسی کو کہہ سکتے ہو تو میری لئے کسی سے ضرور بات کر لینا کیونکہ مجھے ملازمت کی بہت ضرورت ہے۔ انہی دنوں یوسف بیگ مرزا 92 نیوز چینل کو ری لانچ کر رہے تھے۔ میں نے ضیا صاحب کے لئے خصوصی طور پر بیگ صاحب سے درخواست کی، وعدے اور گنجائش کے باوجود ان کے لئے کوئی جگہ نہ نکل سکی۔ تاہم، بھلا ہو آج نیوز والوں کا جنہوں نے بعد میں ان کا پروگرام شروع کیا جس کے لئے ضیا صاحب آج نیوز والوں کے بہت شکرگزار رہا کرتے تھے اور اکثر اس کا ذکر بھی کرتے تھے۔
2015 میں پی ٹی وی کے صحافی ایم ڈی نے ان کے ساتھ سنگین مذاق کیا۔ وہ کچھ اس طرح کہ انہیں اپنے دوست صحافیوں کے ساتھ صبح کے ایک غیر اہم سلاٹ میں ایک پروگرام شروع کرنے کی آفر کی۔ انہوں نے مجھے فون کر کے مشاورت کی اور بتایا کہ ایم ڈی کا کہنا ہے کہ اگر پروگرام چل گیا تو یہ پروگرام شام کے پرائم ٹائم میں لے جایا جائے گا۔ میں نے انہیں کہا کہ ٹی وی پروگرامنگ میں کسی پرگرام کا ایک مرتبہ جو بھی تاثر بن جائے وہ کبھی ٹائم سلاٹ تبدیل کرنے سے بہتر نہیں ہوتا۔ اور اگر اپ کے ساتھ پروگرام کرنا ہی ہے تو بہتر اینکر کے ساتھ پرائم ٹائم میں ابھی سے کیوں نہیں شروع کیا جا سکتا؟ اس پر انہوں نے پی ٹی وی کی آفر ٹھکرا دی۔
2018 میں پی ٹی وی کے ساتھ مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد ضیا صاحب سے نیشنل پریس کلب میں ہونے ہفتہ وار سینیئر جرنلسٹس فورم میں ان سے باقاعدہ رابطہ اور فورم کے حوالے سے مشاورت رہتی تھی اور کہا کرتے تھے کہ اس فورم کو کبھی کمزور نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ اس فورم پر آ کر وہ سیاست دن، معیشت دان، سول سوسائٹی کے ارکان انسانی حقوق کے علمبردار اور ایکسپرٹ جنہیں کہیں اور فورم میسر نہیں، کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔ ان کی صدارت میں فورم اتنا مقبول ہوا کہ اس پر آنا سب نے قبول کیا۔
ایکسپریس ٹربیون میں ان کے چیف رپورٹر عرفان غوری سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہونے کے باوجود تقریبات یا واقعات کی کوریج کے لئے کبھی دباؤ نہیں ڈالا۔ بلکہ کہا کرتے تھے کہ یہ چیف رپورٹر کا ہی کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس کی کوریج ہونی ہے یا کس سے کیا کوریج کرنی ہے، جس سے سٹاف آزادانہ فیصلے کرنے کے لئے کلی طور پر با اختیار ہوا کرتے۔
ضیا صاحب سوشل میڈیا، خاص کر ٹوئٹر پر بہت متحرک رہا کرتے تھے۔ کچھ نہ کچھ ٹوئٹر پرڈالتے رہتے تھے۔ لیکن مجھے اس بات کا ہمیشہ دکھ رہے گا کہ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب نہ لکھی، کہ کس طرح انہوں نے آزادی صحافت کی جنگ لڑی، کس طرح ورکرز کے حقوق کا دفاع کیا، کس طرح آمروں کو چیلنج کرتے رہے، چاہے وہ ایوب ہو یا ضیا یا پھر مشرف، اور چاہے سویلین ڈکٹیٹرشپ ہی کیوں نہ ہو، ضیاالدین صاحب نے سب کا بلا خوف سامنا کیا۔ یہ کتاب ہماری اگلی نسلوں کے صحافیوں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہتی۔ کاش وہ یہ سب راز پاکستانی قوم کے سامنے کھول کر رکھ دیتے۔