اُنکے تبصرے سے قطع نظر یہ المیہ ہی تو ہے کہ حسینیت کا دم بھرنے والے آمریت کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں ہونے والی حُسینؓ کی شہادت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سینے تو چیر ڈالیں گے مگر اُنکی سُنّت پر عمل کرتے ہُوئے اپنے مُلکوں میں آمریت کے خلاف آواز نہیں اُٹھائیں گے۔
مذہبی طبقات کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔ کوئی بھی مسلک دیکھ لیجیے اسکے عُلماء کی بڑی اکثریت آمریت کے دسترخوانوں پر ملے گی۔
خُود کو آئمّہ سے منسُوب کرنے والے اُنکے اکثر مُقلدین یہ نہیں جانتے کہ آئمّہ آمریت کے خلاف جدّوجہد کرتے رُخصت ہُوئے۔ پاکستان میں اکثریت ابُوحنیفہ کے ماننے والوں کی ہے۔ اِن میں سے اکثر نہیں جانتے ہُونگے کہ امام ابُوحنیفہؒ کا آخری فتوٰی المنصُور کی آمرانہ حکُومت کے خلاف عوام کو مسلح جدوجہد شروع کرنے کی اجازت دینے کا تھا جِسکے بعد اُنہیں جیل میں ڈال دیا گیا جیل ہی میں اُنکی پُراسرار انداز میں وفات ہُوئی۔
میں سمجھتا تھا کہ دورِ جدید کے عُلماء میں اتنی اخلاقی جُرات اور صلاحیت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ دین کی ایک اہم ضرورت یعنی سول سپریمیسی کی دین کے قیام میں اہمیت کو سمجھ سکیں لیکن غامدی صاحب نے یہ کہہ کر کہ ’’گورننس میں فوجی مداخلت کے خلاف جدّوجہد میرے دین و ایمان کا مسئلہ ہے‘‘ گویا مُجھ میں نیا خُون بھر دیا ہے۔
غامدی صاحب کا یہ لیکچر سُننے سے تعلُق رکھتا ہے۔ اُن کے اِس لیکچر میں سول سپریمیسی کی ضرورت کو قُرآن سے ثابت کرنا میرے لیے خُوشگوار حیرت کا باعث بنا۔
غامدی صاحب کے برعکس جماعتِ اسلامی اور جمعیت عُلماء اسلام کا حالیہ اینٹی ایسٹیبلشمینٹ سٹانس بھی انکی لیڈرشپ کی دینی فکر میں کسی انقلاب کا شاخسانہ نہیں بلکہ مُسلم لیگ نواز کی طرح اِنہوں نے بھی مخصُوص سیاسی حالات کے باعث یہ سٹانس اپنایا ہے۔
شاید غامدی صاحب عُمر کے اُس آخری حصے میں پُہنچ چُکے ہیں جب ایک حقیقی دینی مُفکّر اپنی لیگیسی کے خیال کے خوف سے اُوپر اُٹھ کر وہ حق بھی بیان کرنے کی کوشِش کرتا ہے جس کا پہلے بیان کرنا اُسے خلافِ مصلحت لگتا تھا۔
بہرحال غامدی صاحب نے عُمر کے آخری حصے میں ہی سہی سول سپریمیسی کا انقلابی بیانیہ اپنا کر قُرونِ اُولیٰ کے فقیہین کی یاد تازہ کر دی۔